الحمد للہ.
كسى كافرہ ملك كى شہريت اختيار كرنى اور وہاں رہائش اختيار كرنا اور وہاں كى شہري تركھنے والى عورت سے شادى كرنے كا معنى يہى ہے كہ اس ميں شادى ناكام ہونے كا احتمال زيادہ ہے اور پھر غالبا بچوں كى تربيت ميں بھى ناكامى ہوتى ہے، خاص كر جب خاوند دين پر عمل كرنے والا ہو، اس كا كوئى بھى انكار نہيں كرتا كہ خاوند اور بيوى اور ان كے بچوں پر ماحول كا اثر ضرور ہوتا ہے، اور اس كا بھى كوئى انكار نہيں كر سكتا كہ ان كفار كے قوانين ايسے ہيں جو اس ملك كى شہريت حاصل كرنے والے سے شادى كرتا ہے اس كى اولاد پر اس ملك كا سلطہ اور طاقت ہوتى ہے.
اس ليے ہمارے بھائى سائل كو جو معاملہ پيش آيا ہے اس كے متعلق ہم يہى دعا كرتے ہيں كہ آپ كے معاملہ ميں اللہ تعالى آسانى پيدا فرمائے اور آپ كو بہتر عمل كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
ہم آپ كو يہ مشورہ ديتے ہيں كہ:
آپ اس ملك ميں رہتے ہوئے اپنى بيوى كو اپنا مطالبہ تسليم كرنے پر راضى كرنے كى كوشش كريں كہ وہ آپ كے ساتھ اسلامى ملك ميں چلى جائے جہاں آپ دونوں اللہ كے احكام پر صحيح طرح عمل كر سكيں، اور اس غلط قسم كے معاشرے اور ماحول سے چھٹكارا حاصل كر سكيں، يہى وہ اعلى اور بہتر چيز ہے جس كو آپ كے ليے حاصل كرنا ممكن ہے، اور اسى ميں آپ كے خاندان اور بچوں كى حفاظت ہو گى.
ليكن اگر آپ اپنى بيوى كى اصلاح نہيں كر سكتے اور وہ اپنى گمراہى ميں رہنے پر مصر ہو اور آپ كے ساتھ جانے سے انكار كر دے اور اپنے خاندان ميں ہى رہنا پسند كرے تو پھر آپ ہر قسم كے اسباب سے اس كے خاندان والوں سے اپنى بچى حاصل كرنے كى كوشش كريں، ايسا كرنا آپ پر واجب اور ضرورى ہے، كيونكہ آپ اس بچى كے ذمہ دار ہيں، اور اگر اس ميں كوئى كوتاہى كرتے ہيں تو بلاشك آپ اس كے ضائع ہونے كے ذمہ دار ہونگے.
اور اگر آپ نے طلاق نہيں دى تو آپ اپنى بيوى كے ساتھ رابطہ ركھيں ہو سكتا ہے آپ كے غائب ہونے كى صورت ميں اس كى رائے تبديل كرنے كا باعث ثابت ہو اور وہ آپ كو اختيار كرنے كے ليے آپ سے مل جائے.
اور اگر طلاق ہو چكى ہے تو پھر آپ اپنى بيٹى سے رابطہ ركھيں اور اس كو حاصل كرنے سے نااميد مت ہوں، اور آپ ملك سے باہر رہتے ہوئے بھى وكيل كى مدد سے اس كو حاصل كرنے كى كوشش كر سكتے ہيں تا كہ وہ اس مقدمہ كى پيروى كرتے ہوئے اسے آپ كى پرورش ميں واپس لائے.
اور آپ كا بيٹى سے مسلسل رابطہ ركھنا بھى آپ كے ساتھ تعلق مضبوط كرنے كا باعث كريگا جب بڑى ہو گى تو وہ آپ سے رابطہ ركھےگى، اور ہو سكتا ہے وہ آپ كے ساتھ رہنے كے ليے آپ كو اختيار كرے، انسان كو علم نہيں كہ اس كے ليے كيا لكھا جا چكا ہے، اس كے ليے تو صرف اتنا ہے كہ وہ اس كے اسباب پيدا كرے اور ان اسباب پر عمل كرے.
اور ہم جس كى تاكيد كرنا چاہتے ہيں وہ يہ كہ آپ كے ليے اپنى بيٹى كواس حالت ميں جو آپ بيان كر رہے ہيں اس كى ماں كے پاس چھوڑنا جائز نہيں، اس كے ليے آپ جو بھى راسطہ اختيار كريں كر سكتے ہيں؛ اس كى ماں كے ساتھ حيلہ اور كوشش كريں كہ وہ اسے لے كر آپ كے ساتھ خليج آ جائے، يا پھر كچھ مدت كے ليے وہاں رہے، جب تك آپ كى بيٹى آپ كے ساتھ نہيں مل جاتى، اگر اس كى فرصت ہو چاہے حيلہ كر كے ہى.
اور آپ كے ليے كوئى مناسب بيوى تلاش كرنا ممكن ہے جو آپ كے حالات كو سمجھتى ہو اور آپ كى رضا كے ساتھ موافق ہو اور آپ كے دين اور ايمان سے موافقت ركھتى ہو.
اور پہلے مرحلہ ميں جس ميں ہميں اميد ہے كہ آپ اپنى بيٹى كو حاصل كر ليں گے اور آپ اس پر مطمئن ہونگے اس ميں ان شاء اللہ آپ كے نئے بيٹوں پر كوئى خطرہ نہيں ہو گا.
اور جب بھى آپ يہ محسوس كريں كہ ا ب ان كا مكمل طور پر كسى اسلامى ماحول ميں منتقل كرنا واجب و ضرورى ہے تو آپ ان كو لے كر اسلامى ملك ميں چلے جائيں، جہاں آپ اپنى اولاد پر مطمئن ہوں، اميد ہے اللہ تعالى آپ كى پہلى بيٹى كو آپ كے ساتھ جمع كريگا.
اور آپ اپنے پروردگار سے اس ميں معاونت طلب كريں اور جس ميں آپ كى بيٹى كے ليے آسانى ہو اللہ سے وہ خير و بھلائى مانگيں.
واللہ اعلم .