سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

منگيتر ميں عيوب كا انكشاف ہونے پر منگنى فسخ كے ليے استخارہ كيا ليكن اس ميں آسانى نہ ہو سكى

125848

تاریخ اشاعت : 23-09-2011

مشاہدات : 5612

سوال

كچھ عرصہ قبل ميرى منگنى ہوئى ہے، ميں نے اپنے منگيتر ميں كچھ ايسے عيب پائے ہيں جن كو برداشت نہيں كيا جا سكتا، ميں محسوس كرتى ہوں كہ وہ ميرے ليے مناسب نہيں اس پر مستزاد يہ كہ وہ اللہ كى اطاعت ميں ميرا معاون بھى نہيں بنتا باوجود اس كے كہ ميں نے منگنى فسخ كے ليے استخارہ بھى كيا ليكن فسخ مشكل ہوتا جا رہا ہے برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟
اگر ميں منگنى توڑتى ہوں تو كيا گنہگار ٹھرونگى كہ اللہ نے ميرے ليے اسے اختيار كيا ليكن ميں اسے اختيار نہيں كر رہى، يا كہ ميں اپنى عقل كو چھوڑ دوں اور اللہ كى اطاعت كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر آپ كے سامنے اپنے منگيتر كے ايسے عيوب واضح ہوتے ہيں جن كى آپ متحمل نہيں ہو سكتى اور انہيں برداشت كرنا مشكل ہے تو پھر آپ كے ليے منگنى توڑنے ميں كوئى حرج نہيں بلكہ منگنى توڑنا شادى كرنے سے بہتر ہوگا، كيونكہ احتمال ہے كہ شادى كے بعد اختلافات پيدا ہوں اور پھر معاملہ طلاق تك جا پہنچے.

جب آپ نے منگنى توڑنے كا ارادہ اور عزم كر ليا تو پھر آپ اللہ سے استخارہ كريں، اور پھر اپنے ولى كو بتا ديں تا كہ منگيتر سے معذرت كر لى جائے، تو اس طرح آپ كى منگنى ختم ہو جائيگى.

استخارہ عقل زائل اور ختم كرنے كے ليے نہيں، يا پھر انسان كو احاطہ ميں ليے ہوئے مادى امور ميں نظر دوڑانے كےليے نہيں ہے، بلكہ يہ استخارہ تو اسے مكمل كرنے كے ليے ہے، كيونكہ بعض اوقات انسان كسى معاملہ اور كام ميں متردد ہوتا ہے جس ميں خير و شر اور مصلحت فساد دونوں پائے جاتے ہيں، يا پھر اس كے انجام سے انسان جاہل ہوتا ہے، اس ليے وہ اللہ سبحانہ و تعالى سے خير و بھلائى كا طالب ہو كر استخارہ كرتا ہے كيونكہ خير كا علم تو اللہ سبحانہ و تعالى كے پاس ہى ہے.

آپ كو لگتا ہے كہ منگيتر ميں كوئى عيب نہيں، ليكن اللہ تعالى كو علم ہے كہ وہ آپ كے ليے مناسب نہيں، بلكہ منگيتر ميں عيوب ہيں اور آپ اس سے جاہل ہيں، يا پھر آپ اس كے مناسب نہيں.

اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ منگيتر ميں عيب ہوں حالانكہ اللہ كو علم ہے كہ وہ آپ كے ليے مناسب ہے، اور اس ميں موجود عيب ختم ہو جائيں گے، يا پھر يہ حقيقت ميں وہ عيب نہيں يا پھر يہ اس كى بيوى كو مناسب نہيں، اس كے علاوہ كئى ايك غيبى امور ہو سكتے ہيں جن كا علم صرف اللہ سبحانہ و تعالى كے علاوہ كسى كو نہيں.

يہ تو سب كو معلوم ہے كہ اللہ كى توفيق كے بغير بندہ كامياب ہى نہيں ہو سكتا، اور اگر اللہ تعالى نے اسے اس كے نفس كے سپرد كر ديا ہوتا تو وہ ضائع ہو جاتا اور نقصان اٹھا كر پريشان رہتا.

جب آپ كسى چيز كے متعلق استخارہ كريں تو پھر اس كام كو كر گزريں، اگر وہ چيز آپ كے ليے بہتر ہوگى تو اللہ سبحانہ و تعالى اس ميں آپ كے ليے آسانى پيدا كرديگا، اور اگر آپ كے ليے بہتر نہيں بلكہ برى ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى اسے آپ سے دور كر ديگا، يا آپ كو اس سے دور كر ديگا.

آپ كے مسئلہ ميں اس كى تطبيق اس طرح ہو سكتى ہے كہ:

جب آپ كو اپنے منگيتر ميں كچھ عيوب نظر آئے تو آپ نے اس سے منگنى ختم كرنے كے ليے اللہ تعالى سے استخارہ كيا تو آپ اس كو كريں اور اس كے متعلق اپنے گھر والوں اور ولى سے بات كريں يا پھر اس سے جو آپ كے منگيتر كو منگنى ختم كرنے كا پيغام دے، اگر تو معاملہ ختم ہو جائے اور آسانى پيدا ہو تو ان شاء اللہ اس ميں بہترى اور خير ہے.

ليكن اگر منگنى ختم ہونے ميں مشكل پيش آئے اور ختم نہ ہو تو پھر اب ميں آپ كے ليے خير نہيں ہے، كيونكہ ہو سكتا ہے اللہ كے علم ميں آپ كى اس سے شادى كرنا بہتر اور اچھا ہو يا پھر كچھ عرصہ تك منگنى رہنا آپ كے ليے بہتر ہو.

وقفہ وقفہ سے استخارہ كرنے ميں كوئى مانع نہيں، ليكن يہاں ہم كچھ امور پر متنبہ كرنا چاہتے ہيں:

اول:

كسى حرام يا مكروہ يا واجب كام ميں استخارہ نہيں ہوتا ہاں يہ ہو سكتا ہے كہ كسى واجب كو سرانجام دينے كے وقت ميں آدمى متردد ہو تو پھر ہو سكتا ہے، اس بنا پر اگر ظن غالب ہو كہ منگيتر تارك نماز ہے، يا پھر مثلا وہ فحاشى كے كام سرانجام ديتا ہے، تو اس رشتہ سے انكار كرنا واجب ہے، اس صورت ميں استخارہ كرنا مشروع نہيں ہوگا.

دوم:

آسانى اور مشكل ہونے كا مسئلہ اس طرح ہے كہ: ہو سكتا ہے كچھ شك اور وسوسہ سا پيدا ہو جائے، ہو سكتا ہے لڑكى كا ولى منگيتر كو منگنى ختم كرنے كى خبر دينے كے ليے رابطہ كرے ليكن اسے منگيتر نہ ملے تو يہ كہا جائے كہ اس ميں مشكل پيدا ہو گئى ہے، ايسا نہيں بلكہ دوبارہ پھر رابطہ اور ٹيلى فون كرنا چاہيے، يا پھر كسى شخص كو پيغام دے كر بھيج ديا جائے.

سوم:

اگر انسان نے استخارہ كے مقتضى كے خلاف كيا تو وہ گنہگار نہيں ہوگا، ليكن ہو سكتا ہے اس سے بہت سارى خير و بھلائى چھن جائے اور دور ہو جائے، اور پھر وہ اسے ترك كرنے پر نادم ہوتا پھرے، يا پھر اللہ نے جو كام اس كے ليے آسان نہيں كيا اس كے اقدام پر اسے كوئى نقصان اور ضرر پہنچے.

كمال ايمان اور توكل يہى ہے كہ بندہ معاملے كو اللہ كے سپرد كر دے، اور اللہ نے جو اختيار كيا ہے اس پر راضى ہو، اور استخارہ كرنے كے بعد كام كر گزرے، اور وسوسہ ميں مت پڑے.

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 11981 ) اور ( 5882 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كے ليے جہاں بھى خير و بھلائى ہو اس ميں آسانى پيدا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب