سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

بيماروں كو دم كرنے كى اجرت لينا

12627

تاریخ اشاعت : 18-07-2006

مشاہدات : 6552

سوال

ہم بعض قرآن كريم كے ذريعہ علاج كرنے والوں كے متعلق سن رہے ہيں، وہ جادو، نظر بد، اور شيطانى مس كے علاج كے ليے پانى، اور تيل پر قرآن مجيد، اور شرعى دعائيں پڑھ كر علاج كرتے ہيں، اور اس كا معاوضہ بھى وصول كرتے ہيں، تو كيا يہ شرعا جائز ہے؟ اور كيا پانى اور تيل پر پڑھنا معالج كا مريض پر پڑھنے كے حكم ميں آتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مريض كو دم كركے اجرت لينے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ صحيحين ميں حديث ہے كہ:

صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم كى ايك جماعت عرب كے ايك قبيلہ كے پاس گئى تو انہوں نےان كى مہمان نوازى نہ كى، اور ان كے سردار كو كسى چيز نے ڈس ليا تو انہوں نے ہر قسم كا علاج معالجہ كيا ليكن اسے كچھ فائدہ نہ ہوا، تو وہ صحابہ كرام كے وفد كے پاس آئے اور كہنے لگے:

كيا تم ميں سے كوئى شخص دم كر سكتا ہے، كيونكہ ہمارے سردار كو كسى چيز نے ڈس ليا ہے؟

تو صحابہ كرام رضى اللہ عنہم نے كہا جى ہاں، ليكن آپ لوگوں نے ہمارى مہمان نوازى نہيں كى اس ليے ہم بھى بغير كسى انعام اور اجرت كے دم نہيں كرينگے، اور ان كے ساتھ بكريوں كےايك ريوڑ پر متفق ہوئے، تو ايك صحابى نے اسے سورۃ الفاتحۃ پڑھ كر دم كيا تو وہ شفاياب ہو گيا، اور انہوں نے معاہدے كے مطابق جو مقرر كيا تھا اسے دے ديا.

تو صحابہ كرام آپس ميں ايك دوسرے سے كہنے لگے:

ہم اس كا اس وقت تك كچھ نہيں كرينگے جب تك كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو نہ بتا ديا جائے، جب وہ مدينہ واپس آئے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سارا قصہ بتايا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " تم نے صحيح كيا "

مريض كے علاج، جادو، اور مجنون شخص كے علاج كے ليے پانى اور تيل پر پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن مريض پر نفث ( پھونك ميں نمى كے ساتھ ) كے ساتھ پڑھنا زيادہ اولى اورافضل اور كامل ہے.

ابو داود رحمہ اللہ تعالى نے حسن سند كے ساتھ حديث روايت كى ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ثابت بن قيس بن شماس كے ليے پانى ميں پڑھا اور وہ پانى اس پر بہايا.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے كہ:

" جب دم شركيہ نہ ہو تو دم كرنے ميں كوئى حرج نہيں"

يہ حديث صحيح ہے، اور مريض پر يا پانى اور تيل پر پڑھنے اور دم كرنے كو عام ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: ديكھيں: كتاب مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ لفضيلۃ الشيخ علامہ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى جلد ( 9 ) صفحہ ( 408 )