جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ميلاد كى مناسب سے كروڑوں درود جمع كرنے كى بدعت

سوال

ميں درج طريقہ سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر دورد پڑھنے كى مشروعيت معلوم كرنا چاہتا ہوں طريقہ يہ ہے:
ہر شخص اپنے جاننے والوں اور عزيز و اقارب ميں ايك محدود تعداد ميں درود پڑھنا تقسيم كرتا ہے پھر وہ اپنے عزيز و اقارب اور جان پہچا نركھنے والوں سے يہ درود ايك صفحہ ميں جمع كرتا ہے تا كہ سب شريك ہوں، مثلا كوئى ايك طالب علم محلہ ميں جا كر ہر گھر كے دروازے پر دستك دے كر ہر فيملى سے ايك ہزار يا اس سے زائد بار درود پڑھنے كا كہتا ہے
اور انہيں كہتا ہے كہ ميں ايك ہفتہ بعد آ كر آپ سے يہ درود لے جاؤنگا جتى تعداد بھى ہو گى، چنانچہ كچھ لوگ ايك ہزار پورا كر ليتے ہيں اور كچھ اس سے زيادہ بھى كر ليتے ہيں تو اس طرح وہ تقريبا ڈيڑھ كروڑ درود كر ليتا ہے، اور اسى طرح سكول كے ہر طالب علم پر بھى پانچ درود تقسيم كيا جاتا ہے تو اس طرح تين كروڑ جمع ہو جائيگا، كيا آپ كے ليے اس موضوع كے متعلق كچھ لكھنا ممكن ہے تا كہ جن مجالس ميں يہ كام ہوتا ہے وہاں پيش كيا جائے اور اس كا رد پيش كريں، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ سب كو اچھے عمل كرنے كى توفيق نصيت فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس شخص كو بھى سنت اور اس كے احكام كا علم ہے، اور وہ سنت نبويہ كے نور سے منور ہوا اور اس كے سائے ميں راحت اختيار كى ہے، اور اس نے شريعت اور اتباع و پيروى كى خوشبو سونگھى ہے اس كو يہ علم ہو گا كہ سوال ميں وارد افعال جيسے عمل كرنا بدعت اور گمراہى ہے، اور وہ اس طرح كے عمل كر كے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا محب مسلمان نہيں ہو سكتا وگرنہ اس طرح كے عمل سے ابو بكر صديق اور باقى صحابہ كہاں رہ گئے ؟

اور اس طرح كے عمل سے سعيد بن مسيب اور باقى تابعين كہاں رہے ؟

اور پھر آئمہ اربعہ اس طرح كے عمل سے كہاں رہ گئے ؟

ان سب ميں سے كوئى بھى ايسا نہيں جس نے ايسا عمل كيا بلكہ اس كے قريب بھى گيا ہو.

جى ہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے ہميں اپنے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كا حكم ديا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى ترغيب دلائى ہے، ليكن حقيقى محب اور اجرعظيم كى رغبت ركھنے والوں ميں سے كسى ايك نے بھى ايسا عمل نہيں اور نہ ہى اس طرح كا كوئى اور عمل جس شريعت سے ثابت نہ ہو.

اس طرح بكا شيڈول بنانے اور اسے سكولوں اور گھروں اور مجلسوں ميں تقسيم كرنا يہ سب اوقات كا ضياع ہے جس ميں كوئى فائدہ نہيں، اور عمر كى تباہى كا باعث ہے؛ بلكہ يہ تو دينى طور پر گمراہى ہے عقلى طور پر بےوقوفى ہے!!

اگر وہ اتباع و پيروى كا معنى جانتے ہوتے تو ان كے ليے اس جدوجھد كو كسى فائدہ مند كام ميں لگانا ممكن تھا، مثلا وہ لوگوں كو اپنى بيويوں كے ساتھ رہن سہن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كيا طريقے تھے كى تعليم ديتے، اور لوگوں كو سكھاتے كہ وضوء كيسے كرنا ہے، نماز كس طرح ادا كرنى ہے، اور لوگوں كو سود خورى سے دور رہنے كى ترغيب دلاتے، اور نماز باجماعت سے پيچھے نہ رہنے كى ترغيب دلاتے.

بلكہ جو لوگ نماز ادا ہى نہيں كرتے انہيں نماز كى طرف آنے كا كہتے، اور عورتوں كو بےپردگى اور بے حيائى اختيار كرنے سے اجتناب كرنے كا كہتے اور اس كے علاوہ بہت سارى اشياء ہيں جو اس كى محتاج تھى كہ اس ميں اس جدوجھد كو صرف كيا جاتا، جس كى بنا پر دين اسلام كا پيغام بڑے اچھے طريقہ سے لوگوں تك پہنچتا جو اس سے غافل ہيں، اور سيدھى راہ سے گمراہ ہو چكے ہيں.

ليكن ايك بدعتى كو ان عظيم كاموں كى توفيق كہاں كيونكہ وہ تو صحيح اتباع و پيروى كو ايك مذاق كى نظر سے ديكھ رہا ہے، اور شرعى محبت كو جہالت كى نظر سے؟!.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود كا حكم معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 101856 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور درود شريف كا معنى كيا ہے اس كو سمجھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 69944 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

يہ لوگ كئى قسم كى بدعات ميں پڑے ہوئے يا پھر ايك ہى بدعت ميں كئى اعتبار سے بدعت كہلاتى ہے وہ يہ كہ:

1 ـ انہوں نے يہ درود جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى مناسبت سے ركھا ہے، اور يہ مناسبت خود بدعت ہے.

اس بدعت كا تفصيلى بيان ہمارى اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 10070 ) اور ( 13810 ) اور ( 70317 ) كے جوابات ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

2 ـ ان كا يہ درود ايك معين تعداد ميں محدود كرنا اور اس كا اپنے اور لوگوں كے ليے كرنا، حالانكہ شريعتا سلاميہ اس كا وجود نہيں ملتا، اور مسلمان شخص كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ ايك بار نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھتا ہے تو اللہ اس پر دس رحمتين نازل فرماتا ہے، جيسا كہ سوال ميں وراد شدہ حديث ميں ہے ـ حالانكہ اس حديث كے صحيح ہونے ميں كلام كى گئى ہے ـ اور اس پر جو زيادہ كيا ہے وہ اس پر ہے، اور مسلمان كو يہ حق نہيں كہ وہ كسى ايسے ذكر كو جو كسى متعين عدد ميں بيان كيا گيا ہے وہ اسے مطلق كر دے، اور اسى طرح اس كو يہ بھى حق نہيں كہ وہ كسى مطلق ذكر كو اپنى عقل سے متعين عدد ميں محدود كر دے.

اور يہ لوگ عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كے اس قول كے كتنے زيادہ حقدار ہيں جو انہوں نے ان بدعتيوں كے اسلاف كے متعلق فرمايا تھا:

" تم اپنے گناہ اور غلطياں شمار كرو، اور ميں تمہارا ضامن ہوں كہ تمہارى نيكياں ضائع نہيں كى جائينگى "

اسے دارمى نے سنن دارمى كے مقدمہ ميں روايت كيا ہے ( 204 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 11938 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

3 ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا ان عام اجتماعى اذكار ميں شامل نہيں ہوتا، بلكہ يہ تو ايك خاص ذكر ہے جو بندے اور اس كے رب كے مابين ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنا اگرچہ افضل اعمال اور اللہ كے ہاں محبوب ترين اعمال ميں شامل ہوتا ہے، ليكن ہر ذكر كے ايك خاص مقام اور جگہ ہے، اور كوئى ذكر وہاں اس كے قائم مقام نہيں ہو سكتا، ان كا كہنا ہے: اسى ليے ركوع اور سجود ميں درود پڑھنا مشروع نہيں، اور نہ ہى ركوع كے بعد كھڑے ہو كر.

ديكھيں: جلاء الافھام في فضل الصلاۃ على محمد خير الانام صلى اللہ عليہ وسلم ( 1 / 424 ).

ان دو نقطوں كا تصفيلى بيان ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 88102 ) اور ( 82559 ) اور ( 22457 ) اور ( 21902 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں اس ميں بہت تفصيل بيان ہوئى ہے.

لہذا جس كسى نے بھى درود كا يہ طريقہ گھڑا اور ايجاد كيا ہے اس كے ليے اس بدعت سے توبہ كرنى واجب ہے، اور اس كے ليے ضرورى ہے كہ وہ لوگوں ميں اس ميں شركت كى دعوت دينے سے باز آجائے، اور جس كسى كو بھى اس كے بدعت ہونے كا علم ہو جائے اسے چاہيے كہ وہ لوگوں ميں اس ميں شريك ہونے سے منع كرے، اور اس كى دعوت دينے سے بھى روكے اور وہ لوگوں كے دھوكہ ميں مت آئے.

اور كسى عقل والے كے بارہ ميں يہ گمان نہيں كيا جا سكتا كہ اللہ رب العالمين كے حكم پر عمل كرتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے سے روك رہا ہے، بلكہ وہ ت وانہيں اس طرح كے بدعتى طريقہ كو اختيار كرنے سے منع كر رہا ہے كہ اس طرح كے طريقہ سے اللہ كا قرب حاصل نہيں كيا جا سكتا.

اور جن جوابات كى طرف ہم نے رجوع كرنے كا كہا ہے اس ميں كافى و شافى بيان موجود ہے، آپ اس كا بغور مطالعہ كريں اور غور و فكر كريں.

ہم اميد ركھتے ہيں اللہ تعالى اس سے فائدہ دےگا، اور گمراہ مسلمانوں كو صحيح راہ دكھائيگا تا كہ وہ اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كى اتباع كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب