الحمد للہ.
عقد نكاح يا عقد نكاح سے قبل ركھى گئى شرط خاوند كو پورا كرنا ہوگى؛ كيونكہ رسول كريم صلى كا فرمان ہے:
" تمہارے ليے سب سے زيادہ وہ شرطيں پورى كرنے كا حق ركھتى ہيں جن كے ساتھ تم نے شرمگاہيں حلال كى ہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2721 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1418 ).
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں، مگر وہ شرطيں جو كسى حلال كو حرام كريں، يا پھر كسى حرام كو حلال كر ديں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1352 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3594 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" آخرى بات يہ كہ نكاح ميں شروط تين قسموں ميں منقسم ہونگى:
پہلى قسم:
وہ شروط جن كا پورا كرنا ضرورى ہے، يہ وہ شرطيں ہيں جن كا فائدہ عورت كو ہوتا ہو، مثلا خاوند اسے اس كے گھر يا علاقے يا شہر سے كہيں دوسرى جگہ نہيں لے جائيگا، يا وہ دوسرى شادى نہيں كريگا... ان شروط كو پورا كرنا لازم ہے، اگر خاوند يہ شرط پورى نہ كرے تو بيوى كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے.
عمر بن خطاب اور سعد بن ابى وقاص اور معاويہ اور عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى قول مروى ہے " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 9 / 483 ).
اس بنا پر جب آپ كے منگيتر كو بتايا گيا كہ آپ ميٹرك كے بعد اپنى تعليم مكمل كرنا چاہتى ہيں، اگر اس سے يہ مراد تھا كہ وہ آپ كو تعليم حاصل كرنے كى اجازت دے اور اس ميں ركاوٹ نہ ڈالے تو پھر خاوند كو يہ شرط پورا كرنا ہوگى.
اور اگر اس سے مراد يہ تھا كہ وہ تعليم حاصل كرنے كى اجازت بھى دے اور اس كے اخراجات بھى برداشت كرے تو خاوند پر اخراجات اور تعليم مكمل كرنا دونوں لازم كيے جائيں گے.
ليكن يہ مدنظر ركھنا ہوگا كہ آيا اس نے فرى تعليم حاصل كرنے پر موافقت كى تھى، يا كہ اس وقت معين اخراجات كے ساتھ.
اس ليے ہمارى تو يہى نصيحت ہے كہ اس سلسلہ ميں خاوند اور بيوى دونوں كو افہام و تفہيم سے كام ليتے ہوئے كوئى سمجھوتہ كرنا چاہيے، اور اس وقت شرط پر جس طرح اتفاق ہوا تھا اسے پورى كرنا واجب ہے، اس سلسلہ ميں خاوند اور بيوى دونوں كو ہى ايك دوسرے كا تعاون كرنا چاہيے.
رہا مسئلہ بيوى كو امتحانى سينٹر تك پہنچانا كس كے ذمہ ہے، اگر تو يہ شرط ميں شامل نہيں تھا تو خاوند پر لازم نہيں، بلكہ بيوى اپنے بھائى يا والد وغيرہ دوسرے محرم شخص كے ساتھ امتحان دينے جا سكتى ہے، يا پھر كسى سہيلى كے ساتھ چلى جائے.
ليكن ہم خاوند كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اس ميں شدت اور سختى سے كام مت لے، بلكہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كرتے ہوئے تعاون كرے، تا كہ دونوں ميں الفت و محبت اور مودت قائم ہو.
واللہ اعلم