اتوار 10 ربیع الثانی 1446 - 13 اکتوبر 2024
اردو

حديث: " يہى نافرمان ہيں، يہى نافرمان ہيں " كى شرح

سوال

ميں نے ايك حديث سنى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے سفر ميں روزہ ركھنے والوں كے متعلق فرمايا كہ يہى نافرمان ہيں، تو كيا اس كا معنى يہ ہے كہ مسافر كے ليے روزہ ركھنا حرام ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال نمبر ( 20165 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ جب مسافر سفر ميں روزہ ركھنے سے مشقت محسوس كرے تو اس كے ليے روزہ نہ ركھنا افضل ہے، اور روزہ ركھنا مكروہ، اور اگر ضرر اور نقصان يا ہلاك ہونے كے خوف تك جا پہنچے تو روزہ ركھنا حرام ہو گا.

سائل نے جس حديث كى طرف اشارہ كيا ہے وہ بھى اسى پر محمول ہے كہ اگر سفر ميں شديد مشقت يا روزہ ضرر دے تو پھر روزہ نہ ركھا جائے، اور حديث كا سياق و سباق بھى اس پر دلالت كر رہا ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عام الفتح ميں رمضان المبارك ميں مكہ كى جانب نكلے اور جب كراع الغيم ـ يہ مكہ اور مدينہ كے درميان ايك جگہ ہے ـ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا: كہ كچھ لوگوں پر روزہ مشقت بن چكا ہے، اور وہ آپ كے فعل كا انتظار كر رہے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم نے عصر كے بعد پانى كا پيالہ منگوايا اور اسے بلند كيا حتى كہ لوگ ديكھنے لگے اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نوش فرما ليا، تو اس كے بعد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا گيا كچھ لوگوں نے ابھى تك روزہ ركھا ہوا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:

" يہى نافرمان ہيں، يہى نافرمان ہيں"

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1114 ).

تو سياق حديث سے يہ حاصل ہوتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دو سبب كى بنا پر انہيں نافرمان كہا:

اول: انہوں نے مشقت كے باوجود روزہ ركھا.

دوسرا: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس ليے روزہ توڑا كہ لوگ ان كى اطاعت و پيروى كريں، تو گويا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں روزہ چھوڑنے كا حكم ديا ليكن انہوں نے ايسا نہ كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں نافرمانوں كا نام ديا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

يہ اس پر محمول ہے جسے روزہ ضرر دے ... اوراس كى تائيد اس قول سے ہوتى ہے: " بعض لوگوں كے ليے روزہ مشقت كا باعث بنا ہوا ہے "

تو اس بنا پر اگر سفر ميں روزہ مشقت كا باعث نہ ہو تو روزہ دار نافرمان نہيں ہو گا. اھـ كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

اور ابن القيم رحمہ اللہ تعالى تھذيب السنن ميں كہتے ہيں:

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا " يہى نافرمان ہيں " يہ معين واقعہ ہے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاہا كہ وہ روزہ چھوڑ ديں تو ان ميں سے بعض سے مخالفت كى تو رسول رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ كلمات كہے .....

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عصر كے بعد روزہ اس ليے چھوڑا كہ لوگ ان كى اقتدا اور پيروى كريں، ليكن جب بعض نے ان كى اقتدا نہ كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہى نافرمان ہيں " اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اس سے يہ مراد نہ تھى كہ مسافر كے ليے مطلقا روزہ ركھنا حرام ہے. اھـ

اور حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سفر ميں روزہ ركھنے والوں كى طرف نافرمانى كى نسبت اس ليے كى كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ان پر روزہ چھوڑنے كا عزم كيا تھا، تو انہوں نے اس كى مخالفت كى. اھـ كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

تو اس بنا پر يہ حديث خاص حالت ميں وارد ہوئى ہے، اور اسے سب مسافروں پر منطبق اور لاگو كرنا صحيح نہيں.

اس كى دليل يہ بھى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سفر ميں روزہ ركھا كرتے تھے، اور اگر سفر ميں روزہ ركھنا معصيت و نافرمانى ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا نہ كرتے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب