جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

کئی نمازیں پڑھنے کے بعد کپڑوں پر مذی لگی ہوئی دیکھی۔

سوال

فجر، ظہر اور عصر کی نماز پڑھنے کے بعد مجھے اندرونی لباس میں مذی کے نشانات نظر آئے ہیں، تو پھر میں نے مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے اپنے کپڑے بدل لیے ، تو کیا پہلے پڑھی ہوئی میری نمازیں باطل ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مذی لیس دار پانی ہوتا ہے جو کہ عام طور پر شہوت کے وقت خارج ہوتا ہے، یہ نجس بھی ہے اور اس سے وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے، تاہم اس کی نجاست ہلکی نوعیت کی ہے چنانچہ نجاست سے طہارت حاصل کرنے کے لیے اتنا کافی ہے کہ شرمگاہ دھو لی جائے اور پانی کے چھینٹے مارے جائیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (2458 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:
آپ کی فجر، ظہر، اور عصر کی نمازیں ان شاء اللہ صحیح ہیں، آپ کے لیے دوبارہ یہ نمازیں دہرانا لازم نہیں ہے۔

اس کی دو وجوہات ہیں:
1-کیونکہ آپ کو مذی کے خارج ہونے کے وقت کا علم نہیں ہے؛ کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ مذی عصر کے بعد ہی نکلی ہو، چنانچہ اس احتمال کے پائے جانے کی وجہ سے : اصولاً یہی ہے کہ: آپ کی سابقہ نمازیں صحیح ہیں، اس حوالے سے علمائے کرام کے ہاں اصول یہ ہے کہ:
اگر عبادت کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں شک عبادت سے فراغت کے بعد آئے تو اس شک کی جانب توجہ نہیں کی جائے گی، اور مسلمان بنیادی اصول پر عمل کرے گا کہ: عبادت صحیح ادا ہوئی ہے تا آں کہ اس کے باطل ہونے کا یقین ہو جائے۔

2- اگر کوئی شخص نجاست کے لگے ہونے سے متعلق لا علم ہو ، یا علم تو پہلے ہو لیکن بھول جائے تو راجح موقف کے مطابق اس کی نماز صحیح ہے۔ اس موقف کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے جمہور کی طرف منسوب کیا ہے اور پھر اسی کو پسند بھی کیا ہے، مزید کے لیے آپ دیکھیں: المجموع (3/163)

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی اگر نمازی بھول گیا کہ نجاست اسے لگی تھی ، اور سلام پھیرنے کے بعد ہی اسے یاد آئے تو مؤلف کی گفتگو کے مطابق نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی؛ کیونکہ نماز کی ایک شرط میں خلل پیدا ہو گیا ہے کہ نجاست سے پاکیزگی حاصل نہیں تھی، تو یہ ایسے ہی ہے کہ اس نے بھول کر بے وضو حالت میں نماز پڑھ لی، اسی کی دوسری مثال یہ ہے کہ: ایک شخص پر غسل واجب تھا اور وہ غسل کرنا بھول گیا۔

تو ان تمام مسائل میں راجح یہ ہے کہ: اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، چاہے وہ نجاست مکمل طور پر بھولا ہو، یا اسے دھونا بھول گیا ہو، یا اسے نجاست لگنے کا علم ہی نہ ہو، یا اسے وہ چیز لگنے کا تو پتہ ہو لیکن یہ نہ پتہ ہو کہ یہ نجاست ہے، یا اسے اس کے حکم کا علم نہ ہو، یا اسے یہ نہ پتہ ہو کہ یہ نجاست نماز سے پہلے لگی ہے یا بعد میں۔
اس کی دلیل ایک عظیم عمومی قاعدہ ہے، جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے بنایا ہے کہ:
 لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا
ترجمہ: اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے بڑھ کر مکلف نہیں بناتا، اسی جان کے لیے ہے جو وہ نیکی کمائے، اور جو گناہ کمائے ان کا خمیازہ بھی اسی پر ہے۔ پروردگار! اگر ہم بھول جائیں، یا غلطی کر بیٹھیں تو ہمارا مؤاخذہ نہ فرمانا۔ [البقرۃ:286 ]
تو یہ حرام کام کا مرتکب ہونے والا شخص جاہل تھا یا بھول گیا تھا، تو اللہ تعالی نے اس کا مواخذہ نہیں کرنا، اس لیے اب ایسی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہتی جس کا اس سے مطالبہ کیا جائے۔

نیز یہاں پر اس مسئلے میں ایک خاص دلیل بھی ہے، وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت گندگی لگی ہوئی دو جوتیوں میں نماز ادا کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جبریل نے بتلایا تو آپ نے دوبارہ شروع سے نماز کا آغاز نہیں کیا، چنانچہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ابتدا کی نماز باطل نہ ہوئی تو بقیہ نماز بھی باطل نہیں ہو گی۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (2/232)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات