سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

خاوند اكثر اوقات ڈيوٹى پر رہنے كى بنا پر بيوى كو خيال نہ ركھنے كا خدشہ ہے

127061

تاریخ اشاعت : 15-01-2013

مشاہدات : 3121

سوال

ميں بيس برس كى ہوں اور كچھ ماہ قبل ميرا عقد نكاح ہوا ہے ليكن رخصتى ڈيڑھ برس بعد كرنے كا فيصلہ كيا گيا ہے ميں بہت تنگى سى محسوس كرتى ہوں كيونكہ خاوند ميرا خيال نہيں كرتا اور ميرے معاملات كى خبر گيرى نہيں كرتا بلكہ اكثر اوقات ڈيوٹى پر ہى رہتا ہے، يہ اس شادى سے خوفزدہ سى رہتى ہوں.
خاص كر ميں ابھى ابتدائى عمر ميں ہوں، اور ابھى والدين كے گھر رہ رہى ہوں، مجھے علم نہيں كہ خاوند كے گھر منتقل ہونے پر كيا صورت حال ہوگى، مجھے ہر وقت غلط قسم كے خيالات آتے رہتے ہيں، اور خاص كر بہت سارے لوگ مجھ ميں رغبت بھى ركھتے ہيں، اس شادى سے ميں تنگى سى محسوس كر رہى ہوں، برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں آپ كيا نصيحت كرتے ہيں، اور مجھے بتائيں كہ خاوند پر ميرے كيا حقوق ہيں برائے مہربانى كتاب و سنت سے دلائل كے ساتھ واضح كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر آپ كا خاوند دينى اور اخلاقى اعتبار سے پسنديدہ ہے تو آپ كو اللہ كا شكر ادا كرنا چاہيے كہ اس نے آپ كى شادى ميں آسانى پيدا فرمائى، اور آپ اس سلسلہ ميں پريشان مت ہوں اور خوفزدہ ہونے سے اجتناب كريں، اگر ہمارے خيال ميں آپ جيسى عمر كى لڑكى كو اس طرح كے وسوسے متوقع ہيں بلكہ اكثر لوگ تو عقد نكاح يا پھر منگنى كے بعد اس طرح كے خدشات كا شكار رہتے ہيں.

ليكن انسان كو ہر حالت ميں نيك فال لينى چاہيے اور جب خاندان والے اس لڑكے اور اس كے خاندان كو جانتے ہيں تو پھر اس كے بارہ ميں حسن ظن ركھنا چاہيے، اگر شادى سے قبل انہوں نے اس نوجوان كى حالت كے بارہ ميں جاننے كى حتى الوسع كوشش كى اور دينى و اخلاقى اقدار كى ديكھ بھال كے بعد شادى كى تو حسن ظن ركھنا ہوگا.

اس دور ميں خاوند كا اكثر وقت ڈيوٹى پر رہنے كوئى شاذ عمل نہيں، كيونكہ معيشت بہت مہنگى ہو چكى ہے اور كمائى كے اسباب بہت كم ہيں، عقل و دانش ركھنے والا خاوند اپنى بيوى اور بچوں كے سلسلہ ميں حريص ہوتا ہے، اور وہ ڈيوٹى اور بيوى بچوں كے حقوق كى ادائيگى ميں توازن قائم ركھتا ہے.

چنانچہ بيوى بچوں كو بھى اپنے سايہ عاطفت سے كچھ ضرور ديتا ہے، اور ملازمت كو بھى وقت ديتا ہے، جب گھر آتا ہے تو بچوں اور بيوى كے ساتھ اوقات بسر كر كے انہيں خوشى مہيا كرتا ہے، اور گھر ميں ايك محبت و مودت كى فضا قائم كر كے گھر سے باہر رہنے كى خلاء كو پر كرنے كى كوشش كرتا ہے، ہميں اميد ہے كہ ان شاء اللہ آپ رخصتى كے بعد يہ چيز اپنے خاوند ميں ضرور پائيں گى.

بيوى كے اپنے خاوند پر كچھ حقوق ہيں، اور اسى طرح خاوند كے بھى بيوى پر كچھ حقوق ہيں، بيوى كے خاوند پر حقوق ميں شامل ہے كہ خاوند اپنى بيوى كو رہائش اور كھانا پينا اور لباس حسب استطاعت مہيا كرے گا، اور بيوى كے ساتھ حسن معاشرت بھى بيوى كے حقوق ميں شامل ہے.

اسى طرح بيوى كى دينى امور ميں معاونت كر كے اس كے دينى امور كى اصلاح كرنے كا بھى حق ہے، اور بيوى كو ہر قسم كى برائى سے روك كر ركھےگا، اور جہنم كى آگ سے گھر والوں كو محفوظ ركھنا خاوند پر واجب ہے، اور بيوى كو اپنے خاوند كى اطاعت كرنا ہوگى، اسى طرح بيوى اپنے خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كر كے اس كى عزت و نفس كى حفاظت كرےگى.

ان حقوق اور اس كے دلائل كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 10680 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

يہاں ہم سائلہ كو يہ تنبيہ كريں گے كہ: اگرچہ عورت بہت سے لوگوں كو مرغوب بھى ہو تو اگر وہ عورت كسى شخص كو خاوند بنانا قبول كرتى ہے تو اسے اس شخص پر مطئمن اور راضى ہونا ہوگا، اور وہ اپنے خاوند كى سعادت و خوشى كى كوشش كريگى، اور خاوند كے ساتھ رہنے ميں خير كى اميد ركھنا ہوگى.

اور خاوند كے حقوق كى ادائيگى كے ليے اسے اللہ سبحانہ و تعالى سے معاونت طلب كرتے رہنا ہوگى، اس طرح وہ اپنے خاوند كے ساتھ ايك سعادت مند زندگى بسر كر سكتى ہے.

ليكن جو عورت اپنے حال كو ديكھے اور وہ اپنے آپ كو پسند كرے اور دھوكہ ميں رہے كہ لوگ اسے بہت چاہتے ہيں اور اس كے ليے رشتے بہت آتے ہيں، ايسى عورت كو ہو سكتا ہے اپنے خاوند كے ساتھ رہنے كى توفيق حاصل نہ ہو سكے، اور اپنى اس حالت كى بنا پر وہ اطمنان تك نہيں پہنچ سكتى اس طرح وہ اپنے نفس كى راحت و سعادت كھو بيٹھےگى، ہمارى دعا ہے اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو اس سے محفوظ ركھے.

حاصل يہ ہوا كہ: ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ پريشان مت ہوں اور خوف كو چھوڑ ديں، بلكہ اس كے مقابلہ ميں حسن ظن ركھتے ہوئے اللہ سے اچھائى كى اميد ركھيں اور دعا كرتى رہيں اللہ تعالى آپ كو توفيق سے نوازے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا تم يہ دعا كيا كرو:

اللَّهُمَّ اهْدِنِي وَسَدِّدْنِي

" اے اللہ مجھے ہدايت نصيت فرما اور مجھے سيدھا ركھ "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2725 ).

اور ايك روايت ميں ہے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالسَّدَادَ

" اے اللہ ميں تجھ سے ہدايت و سيدھى راہ طلب كرتا ہوں "

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كسى كام كے ليے ميرے گھر تشريف لائے تو ميں نماز ادا كر رہى تھى ، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو كوئى حاجت و ضرورت تھى اور ميں نے آپ كے پاس آنے ميں دير كر دى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عائشہ تم مجمل اور جامع دعا كرو.

جب ميں نے نماز ختم كى تو عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم جامع كيا دعا ہے ؟

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللهم إني أسألك من الخير كله ، عاجله وآجله ، ما علمت منه وما لم أعلم ، وأعوذ بك من الشر كله ، عاجله وآجله ، ما علمت منه وما لم أعلم . وأسألك الجنة وما قرب إليها من قول أو عمل ، وأعوذ بك من النار وما قرب إليها من قول أو عمل ، وأسألك مما سألك به محمد ، وأعوذ بك مما تعوذ منه محمد ، وما قضيتَ لي من قضاء فاجعل عاقبته رشداً "

اے اللہ ميں تجھ سے سارى بھلائى كا طالب ہوں، جلد اور دير والى، جس كا مجھے علم ہے اور جو ميرے علم ميں نہيں، اور ميں سارے شر سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں، جلدى اور بدير جس كا مجھے علم ہے يا ميں علم نہيں ركھتا، اور ميں تجھ سے جنت كا سوال كرتا ہوں، اور ايسے قول و عمل كا سوال كرتا ہوں جو جنت كے قريب كر دے، اور ميں آگ سے تيرى پناہ ميں آتا ہوں، اور اس قول و عمل سے بھى جو آگ كے قريب كر دے، اور ميں اس چيز كے ساتھ تجھ سے سوال كرتا ہوں جس كے ساتھ محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے تجھ سے سوال كيا ہے، اور ميں اس چيز كے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جس كے ساتھ محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے پناہ مانگى ہے، اے اللہ تو نے جو ميرے ليے فيصلہ كيا ہے اس كا انجام اچھا كرنا "

امام بخارى نے اسے ادب المفرد حديث نمبر ( 639 ) ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ آپ يہ دعا كثرت سے كيا كريں، اور اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ اپنا تعلق مضبوط كريں، اور اللہ كے پاس جو خير و بھلائى ہے اس كى اميد ركھيں، اور اگر اس سلسلہ ميں كچھ مشكل پيش آئے تو اپنے خاندان كے كسى امين و ناصح اور تجربہ كار شخص سے معاونت بھى ليں.

ہمارى دعا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ اور آپ كے خاوند كے حال كى اصلاح فرمائے، اور آپ دونوں كے ليے سعادت و خوشى مقدر كرے، اور آپ كو توفيق سے نوازے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب