اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مہر ليے بغير خاوند كے ساتھ جانے سے انكار كرنا

127325

تاریخ اشاعت : 22-12-2009

مشاہدات : 6406

سوال

ميں نے ايك غير اسلامى ملك ميں دو ماہ قبل ايك كنڈين مسلمان شخص سے شادى كہ ہے اس نے مجھے ابھى تك مہر ادا نہيں كيا، حالانكہ اسے علم ہے كہ اسلام ميں عورت كے ليے مہر كى ادائيگى واجب ہے، كيا اگر وہ مجھے ہم بسترى كے ليے بلائے اور ميں انكار كر دوں تو كيا صحيح ہو گا يا غلط ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نكاح ميں عورت كے ليے مہر واجب ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى دے دو النساء ( 4 ).

ان ميں سے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہيں ان كا مقرر كردہ مہر دے دو النساء ( 24 ).

يعنى ان كے مہر ادا كرو.

اور عقد نكاح كے وقت مہر پر اتفاق كر كے اسے بيان كرنا چاہيے، اور اگر اس پر اتفاق نہ كيا گيا ہو اور عقد نكاح كے وقت بيان نہ ہوا ہو تو نكاح صحيح ہو گا ليكن عورت كو مہر مثل ادا كيا جائيگا.

اور اگر مہر عاجل ہو يعنى اس كو بعد ميں دينا مقرر نہ كيا گيا ہو تو عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ مہر كى ادائيگى كيے بغير خاوند كو اپنے پاس آنے سے روك دے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اگر عورت اپنے آپ كو خاوند سے روك دے حتى كہ اپنا مہر لے لے اور مہر معجل ہو يعنى بعد ميں دينا مقرر نہ كيا گيا ہو تو اسے يہ حق حاصل ہے، ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ہم نے جس اہل علم سے بھى علم حاصل كيا ہے ان سب كا اس پر اجماع ہے كہ عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ خاوند كو دخول نہ كرنے دے حتى كہ مہر حاصل كر لے...

اور اگر كچھ مہر معجل ہو اور كچھ بعد ميں دينا مقرر كيا گيا ہو تو مہر معجل حاصل ہونے تك اسے خاوند كو اپنے سے روكنے كا حق حاصل ہے، ليكن جو مہر بعد ميں دينا مقرر كيا گيا ہے اس ميں حق نہيں " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 200 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورت حق حاصل ہے كہ مہر معجل ( يعنى في الحال ديا جانے والا مہر ) كے حصول تك اپنے آپ كو خاوند سے روك لے اور مہر كى دو قسميں ہيں:

يا تو مہر معجل ہو يا گا يا پھر مؤجل يعنى فوى طور پر ادا كرنا يا بعد ميں ادا كرنا، مؤجل ميں عورت كو وقت سے قبل مہر طلب كرنے كا حق نہيں، اور نہ ہى وہ اپنے آپ كو خاوند سے روك سكتى ہے؛ كيونكہ اس كے حق كا ابھى وقت نہيں آيا ليكن اگر مہر معجل ہو يعنى ادھار نہ ہو تو وہ مہر لينے تك اپنے آپ كو خاوند سے روك سكتى ہے.

اس كى مثال يہ ہے: ايك شخص نے عورت سے دس ہزار ريال غير مؤجل مہر ميں شادى كى تو عورت كہنے لگى: مجھے مہر دو خاوند كہنے لگا: انتظار كرو، تو اس عورت كو حق حاصل ہے كہ وہ اپنے آپ كو خاوند سے روك لے اور اسے قريب نہ آنے دے، اور اسے كہے: ميں اس وقت اپنا آپ تيرے سپرد نہيں كرونگى جب تك مجھے مہر ادا نہيں كرو گے؛ كيونكہ يہ مہر منفعت كے عوض ميں ہے، اور خدشہ ہے كہ اگر عورت نے اپنا آپ خاوند كے سپرد كر ديا اور منفعت پورى ہو گئى تو خاوند مہر دينے ميں ليت و لعل سے كام ليتے ہوئے اس سے كھيلنے لگے چنانچہ خاوند اس سے محروم رہے گا حتى كہ مہر ادا كرے "

الشرح الممتع ( 12 / 314 ).

اس بنا پر آپ كے ليے اپنے والدين كے گھر ميں ہى رہنا جائز ہے، اور آپ اس كے مطالبہ كو رد كر سكتى ہيں حتى كہ وہ آپ كا غير مؤجل مہر ادا كر دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب