اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا يہ صحيح ہے كہ مسافر اور مريض پر روزہ واجب نہيں اور ان كا روزہ صحيح نہيں

سوال

درج ذيل قول كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے:
مريض اور مسافر پر روزہ چھوڑنا واجب ہے وہ اس كى قضاء كريں گے، ان كے ليے روزہ ركھنا جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے .
اس طرح ان پر روزے كى قضاء واجب ہوئى جس كا معنى يہ ہے كہ وہ روزہ نہيں ركھيں گے.
كيا يہ قول صحيح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس مريض پر روزہ ركھنا مشقت كا باعث ہو تو اس كے ليے روزہ چھوڑنے كى رخصت ہے، اور مسافر شخص رمضان ميں روزہ نہيں ركھےگا اسے روزہ چھوڑنے كى اجازت ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جو كوئى مريض ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 185 ).

اور اگر وہ روزہ ركھ ليں تو ان كا روزہ صحيح ہوگا؛ كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ حمزہ بن عمرو اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا:

" كيا ميں سفر ميں روزہ ركھ لوں ؟ كيونكہ وہ بہت زيادہ روزے ركھا كرتے تھے

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر تم چاہو تو روزہ ركھ لو، اور اگر چاہو تو روزہ چھوڑ دو "

اسے محدثين كى ايك جماعت نےروايت كيا ہے.

ليكن اگر انہيں روزہ ركھنے سے اپنےآپ كا خطرہ ہو تو پھر روزہ چھوڑنا واجب ہوگا؛ كيونكہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك سفر ميں كچھ ازدحام ديكھا كہ لوگ جمع ہيں اور ايك شخص پر سايہ كر ركھا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دريافت كيا: يہ كيا ہے ؟

تو لوگوں نے عرض كيا: يہ شخص روزے سے ہے.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" سفر ميں روزہ ركھنا نيكى نہيں ہے "

مسافر شخص كے ليے روزہ چھوڑنا مطلقا افضل ہے كيونكہ حمزہ بن عمرو اسلمى رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

" ميں روزے كى استطاعت ركھتا ہوں تو كيا مجھ پر كوئى گناہ ہوگا ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے رخصت ہے، اس ليے جس نے اللہ تعالى كى رخصت پر عمل كيا تو يہ بہتر ہے، اور جس نے روزہ ركھنا پسند كيا تو اس پر كوئى گناہ نہيں "

اسے امام مسلم نے روايت كيا ہے.

رہى سورۃ البقرۃ كى مندرجہ بالا آيت جس سے ظاہرى طور پر آپ كو اشكال پيدا ہوا ہے، جب آپ كو يہ علم ہو گا كہ آيت ميں " فافطر " يعنى اس نے روزہ چھوڑ ديا كےالفاظ محذوف ہيں تو وہ اشكال زائل ہو كرجاتا رہےگا.

اس ليے آيت كا معنى يہ ہوا كہ جو كوئى تم ميں سے مريض ہو يا مسافر تو اس نے روزہ چھوڑ ديا تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے گا، اہل علم نے يہى بيان كيا ہے،اور اس طرح كى مثاليں كتاب و سنت ميں بہت پائى جاتى ہيں اور كلام عرب بھى اس سے خالى نہيں جس كا ذكر كر كے ہم كلام كوطويل نہيں كرنا چاہتے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينےوالا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائيں " انتہى

مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى سعودى عرب.

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.

الشيخ عبد العزيز آل شيخ.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ صالح الفوزان.

الشيخ بكر ابو زيد.

ماخذ: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء المجموعۃ الثانيۃ ( 9 / 83 )