سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

نذر كا روزہ شوال كے چھ روزں پر مقدم ہوگا

سوال

ميں بيمار ہوگئى تو ميں نے نذر مانى كہ اگر مجھے شفايابى مل گئى تو ميں پندرہ دن كے روزے ركھوں گى، ليكن اس كے ليے ميں نے وقت كى تحديد نہ كى كہ كسى بھى وقت ركھ سكتى ہوں، الحمد للہ مجھے شفا حاصل ہوگئى اور ميں نے رجب ميں روزے ركھنے شروع كر ديے، پانچ روزے ركھے اور تھك گئى پھر پانچ روزے شعبان ميں ركھے، اور رمضان آ گيا تو ميں نے رمضان المبارك كے روزے ركھے، اور اب ہم شوال كے مہينہ ميں ہيں كيا پہلے ميں شوال كے چھ روزے ركھوں يا كہ كے نذر كے باقى مانندہ پانچ روزے پہلے ركھوں، برائے مہربانى مجھے معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو بركت سے نوازے .

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كو چاہيے كہ پہلے اپنى نذر كے روزے ركھيں، اور پھر بعد ميں اگر شوال كے چھ روزے ركھنے ممكن ہوں تو شوال كے چھ روزے ركھ ليں، اور اگر نہ بھى ركھيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ شوال كے چھ روزے مستحب ہيں واجب نہيں.

ليكن نذر كے روزے فرض و واجب ہيں، اس ليے آپ پر واجب ہے كہ آپ نفلى روزوں سے پہلے فرض كى ابتدا كريں، اور اگر آپ نے پندرہ روزے مسلسل يعنى تسلسل كے ساتھ پندرہ روزے ركھنے كى نيت كى تھى تو پھر يہ تسلسل كے سا تھ ركھنا ضرورى ہيں، اور آپ كے ليے جائز نہيں كہ آپ عليحدہ عليحدہ روزے ركھيں كبھى پانچ اور كبھى كم يا زيادہ اس طرح پہلے روزے رائيگاں ہونگے.

ليكن اگر آپ نے غير مسلسل روزے ركھنے كى نيت كى تھى تو آپ پر باقى مانندہ پانچ روزے مكمل كرنا واجب ہيں اس طرح ان شاء اللہ آپ كى نذر كے روزے پورے ہو جائيں گے.

اور آپ كو اس كے بعد نذر نہيں ماننى چاہيے، كيونكہ نذر نہيں چاہيے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم نذر مت مانو، كيونكہ نذر تقدير ميں سے كچھ واپس نہيں لاتى، بلكہ يہ تو بخيل سے نكالنے كا ايك بہانہ ہے "

اس ليے نہ تو كسى مريض كو نذر ماننى چاہيے اور نہ ہى تندرست كو، ليكن جب كوئى انسان اللہ كى اطاعت كى نذر مانے تو اس كے ليے وہ نذر پورى كرنى واجب ہے، مثلا روزے اور نماز كى نذر.

اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى اللہ كى اطاعت كى نذر مانى تو اسے چاہيے كہ وہ اللہ كى اطاعت كرے، اور جس نے اللہ كى نافرمانى كى نذر مانى تو وہ اللہ كى نافرمانى مت كرے "

اسے امام بخارى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے.

اس ليے اگر كسى انسان نے كچھ محدود ايام كے روزے ركھنے كى نذر مانى يا پھر دو ركعت نما زكى يا صدقہ كرنے كى نذر مانى تو اس نے اطاعت كى جو نذر مانى ہے اسے پورا كرنا لازم ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے مومنوں كى مدح اور تعريف كرتے ہوئے فرمايا ہے:

وہ نذريں پورى كرتے ہيں، اور اس دن سے ڈرتے ہيں جس كى برائى چاروں طرف پھيل جانے والى ہے الدھر ( 7 ).

اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر پورى كرنے كا حكم ديا ہے، جيسا كہ مندرجہ بالا حديث ميں بيان ہوا ہے، اس ليے نذر شفايابى كا سبب نہيں، اور نہ ہى يہ مطلوبہ حاجت و ضرورت پورى كرنے كا سبب ہے، اس ليے اس كى كوئى ضرورت ہى نہيں.

ليكن يہ ايسى چيز ہے جو انسان اپنے ليے لازم كرتا ہے اور اس طرح بخيل سے نكالا جاتا ہے، پھر اس كے بعد وہ نادم ہوتا اور حرج ميں پڑ جاتا ہے كہ كاش وہ نذر نہ ہى مانتا.

اس ليے الحمد للہ شريعت مطہرہ وہ كچھ لائى ہے جو لوگوں كے زيادہ بہتر اور فائدہ مند ہے اور وہ نذر ممنوع ہے كہ نذر نہ مانى جائے " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.

ماخذ: ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 3 / 1261 )