الحمد للہ.
اول:
اصول یہی ہے کہ آباؤ اجداد یعنی باپ، ماں، دادا، دادی وغیرہ کو زکاۃ نہیں دی جا
سکتی، اور اسی طرح اپنی نسل یعنی بیٹا بیٹی اور انکی اولاد کو بھی زکاۃ نہیں دی جا
سکتی، کیونکہ ان کا خرچہ انسان پر لازم ہوتا ہے، اس لیے انہیں زکاۃ دینے کی ضرورت
نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ للہ کہتے ہیں:
"والدین اور آباؤ اجداد کو زکاۃ نہیں دی جا سکتی چاہے کتنے ہی دور کے ہوں، اسی طرح
اپنی نسل کو زکاۃ نہیں دے سکتے چاہیے کتنے ہی نچلے [پوتے، پڑ پوتے۔۔۔]درجے کی ہو،
چنانچہ ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ والدین کو
زکاۃ کا پیسہ نہیں دیا جا سکتا، بلکہ اپنے والدین کو زکاۃ دینے والے شخص پر زور
دیا جائے گا کہ وہ ان کا خرچہ زکاۃ سے ہٹ کر ادا کرے، کیونکہ وہ اپنے والدین کو
زکاۃ دے کر ان پر خرچہ کرنے سے جان چھڑانا چاہتا ہے، چنانچہ انہیں زکاۃ دیکر اپنا
مال بچائے گا اور اس سے زکاۃ دینے والے کا فائدہ ہوگا، یعنی دوسروں لفظوں میں
والدین کو زکاۃ دینا زکاۃ اپنے ہی پاس رکھنے کے مترادف ہوگا، اس لیے یہ جائز نہیں
ہے۔۔" انتہی
" المغنی" (2/269) اختصار کیساتھ اقتباس مکمل ہوا
یہ حکم ایسی صورت میں ہے جب بیٹا انہیں زکاۃ دے کر اپنے ذمہ واجب ہونے والے والدین کے خرچے سے بچنا چاہتا ہو، لیکن والدین کا قرض چکانا اولاد پر لازمی نہیں ہے، اس لیے والدین کو ان کا قرض چکانے کیلئے زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
چنانچہ "الموسوعة الفقهية" (23/177) میں ہے کہ:
"مالکی ، شافعی فقہاء اور حنبلی اہل علم میں سے ابن تیمیہ نے یہ شرائط فقراء اور
مساکین کی مد میں رشتہ دار کو زکاۃ دینے کی صورت میں لگائی ہے، لیکن اگر کوئی
شخص اپنے والد اور اولاد کو زکاۃ جمع کرنے یا گردن آزاد کرنے یا چٹی اٹھانے والے
یا جہاد کرنے والے افراد کی مد میں زکاۃ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
نیز فقہائے کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر انسان پر ان کا خرچ لازم نہ ہو تو انہیں
زکاۃ دینا جائز ہے۔" انتہی
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا میں اپنے مال کی زکاۃ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو دے سکتا ہوں؟ ان کی پرورش
میرے والد مرحوم کے فوت ہونے کے بعد میری والدہ کر رہی ہیں، تو کیا میں اپنے بڑے
بھائیوں کو بھی زکاۃ دے سکتا ہوں؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ انہیں دیگر لوگوں کی بہ
نسبت زکاۃ کی زیادہ ضرورت ہے، تو کیا میں انہیں زکاۃ دے دوں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"زکاۃ کا پیسہ زکاۃ کے مستحق رشتہ داروں میں تقسیم کرنا غیروں میں تقسیم کرنے سے
افضل ہے؛ کیونکہ رشتہ داروں میں زکاۃ تقسیم کرنا صدقہ اور صلہ رحمی ہے، تاہم یہ
رشتہ دار ایسے نہیں ہونے چاہییں جن کا خرچہ آپ کے ذمہ واجب ہے، چنانچہ اگر آپ کسی
رشتہ دار کو زکاۃ اس لیے دیتے ہیں کہ آپ کے ذمہ واجب خرچہ سے جان بچ جائے تو یہ
جائز نہیں ہوگا، لہذا اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ کے بہن بھائی غریب ہیں، اور
آپ کے پاس اتنی دولت نہیں ہے کہ ان پر زکاۃ سے ہٹ کر خرچ کر سکیں تو آپ انہیں اپنی
زکاۃ دے سکتے ہیں، اسی طرح اگر ان بہن بھائیوں پر لوگوں کے قرضے ہوں تو آپ اپنی
زکاۃ سے ان کے قرضے چکا سکتے ہیں، اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ رشتہ داروں
کے قرضے رشتہ داروں پر چکانے فرض نہیں ہوتے، اس لیے کوئی بھی رشتہ دار اپنے کسی
عزیز کے قرضے زکاۃ سے چکا سکتا ہے، چاہے مقروض رشتہ دار آپ کا بیٹا یا والد ہے اور
اس پر کسی کا قرضہ ہے جسے وہ چکانے کی سکت نہیں رکھتا تو آپ اپنی زکاۃ سے یہ قرضہ
چکا سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ اپنے والد کا قرضہ اپنی زکاۃ سے ادا کر
دیں، اسی طرح اپنے بیٹے کا قرضہ اپنی زکاۃ سے ادا کر دیں، تاہم شرط یہ ہے کہ یہ
قرضہ انہیں اپنا خرچہ نہ ملنے کی وجہ سے نہ ہو، لہذا اگر ان پر آنے والا یہ قرض آپ
کے ذمہ خرچہ نہ ملنے کی وجہ سے چڑھا ہے تو پھر آپ یہ قرض اپنی زکاۃ سے ادا نہیں کر
سکتے، تا کہ کوئی بھی شخص رشتہ دار کے قرض زکاۃ سے چکانے کی سہولت کو حیلہ نہ بنا
لے اور انہیں اپنی ضروریات قرضہ لے کر پوری کرنے کا کہے اور پھر اپنی زکاۃ سے ان
کا قرض چکا دے، اس طرح خرچہ بھی نہ دینے پڑے اور زکاۃ بھی اپنے گھر ہی رہے!" انتہی
"مجموع الفتاوى" (14/311)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"انسان اپنے آباؤ اجداد اور اپنی نسل کو زکاۃ دے سکتا ہے؟ اس کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"زکاۃ اپنے آباؤ اجداد یا اپنی نسل کو ان کے نفقہ کی ذمہ داری سے جان چھڑانے
کیلئے دے تو یہ زکاۃ ادا نہیں ہوگی، لیکن اگر نفقہ کی ذمہ داری سے جان چھڑانا مقصود
نہ ہو تو پھر زکاۃ دی جا سکتی ہے، مثال کے طور پر اپنے زندہ والد کی طرف سے قرض چکا
سکتے ہیں، یا انسان کا مال اپنے اہل و عیال سمیت پوتوں پر خرچ کرنے کیلئے ناکافی ہے
تو اپنے پوتوں کو زکاۃ دے سکتا ہے؛ کیونکہ اس صورت میں آدمی پر پوتوں کا خرچہ لازمی
نہیں ہے، اور یہ اصول ہے کہ اپنے آباؤ اجداد یا اپنی نسل کو زکاۃ ایسی صورت میں
دینا جب انہیں زکاۃ لگتی ہو تو یہ غیروں کو دینے سے افضل ہے؛ کیونکہ یہ صدقہ اور
صلہ رحمی ہے" انتہی
"مجموع الفتاوى" (18/415)
حاصل کلام یہ ہے کہ:
اگر بیٹے پر قرض ہو اور وہ اسے چکانے کی سکت نہ رکھتا ہو تو والد کی طرف سے اسے
زکاۃ دینا جائز ہے، اسی طرح بیٹا بھی ایسی صورت میں والد کو زکاۃ دے سکتا ہے۔
واللہ اعلم.