الحمد للہ.
جمہور اہل علم جن میں ائمہ اربعہ ابو حنیفہ، مالک، شافعی، اور احمد رحمہم اللہ بھی شامل ہیں سب کے سب سامانِ تجارت پر زکاۃ واجب ہونے کے قائل ہیں۔
انہوں نے اس بارے میں کتاب و سنت اور اقوال صحابہ سے متعدد دلائل دئیے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
1- فرمانِ باری تعالی :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنی تجارت اور جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا ہے اس میں سے خرچ کرو۔[البقرة:267]
مجاہد اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت تجارت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
2- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان چیزوں کی زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے جو ہم تجارت کیلئے تیار کرتے تھے)
ابو داود (1562) ابن عبد البر نے اسے حسن کہا ہے، جبکہ البانی نے اسے "ارواء الغلیل"(827) میں ضعیف قرار دیا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "تلخیص الحبیر" (2/391) میں کہتے ہیں: اس کی سند میں مجہول راوی ہیں، نووی رحمہ اللہ "المجموع" (6/5) میں کہتے ہیں کہ اس کی سند میں ایسے لوگ ہیں جن کے بارے میں میں کچھ نہیں جانتا۔
3- دارقطنی اور حاکم نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ فرما رہے تھے: (اونٹوں میں زکاۃ ہے، بکریوں میں زکاۃ ہے، گائے میں زکاۃ ہے، اور کپڑے میں بھی زکاۃ ہے۔۔۔) الحدیث
حافظ ابن حجر "تلخیص الحبیر" (2/391) میں کہتے ہیں: "اس کی سند میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے" اور نووی رحمہ اللہ نے سے "المجموع"(6/4) میں صحیح کہا ہے۔
حدیث میں مذکور " اَلْبَزّ " کپڑے کو یا اس کی کسی خاص قسم کو کہتے ہیں، اس کو پڑھنے کیلئے "با" پر زبر اور آخر میں "زا"ہے، دار قطنی اور بیہقی نے اس کا اعراب یہی بتلایا ہے، اور اس حدیث کو حاکم نے صحیح کہا ہے جبکہ دیگر علماء نے اس کے بارے میں نکتہ چینی کی ہے، اور نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: کچھ لوگوں نے "با" پر پیش اور آخر میں "را" پڑھا ہے، جو کہ غلط ہے۔
چنانچہ اس حدیث میں سامانِ تجارت پر زکاۃ لاگو ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ عام کپڑوں میں اس وقت تک زکاۃ نہیں ہوتی جب تک وہ تجارت کیلئے نہ ہوں، اس لیے اس حدیث کا مفہوم یہی ہوگا کہ یہاں کپڑوں میں زکاۃ سے مراد تجارت کی غرض سے لئے جانے والے کپڑے ہیں۔
4- بخاری: (1468) مسلم: (983) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو زکاۃ وصولی کیلئے روانہ فرمایا تو ابن جمیل ، خالد بن ولید، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہم نے زکاۃ ادا نہ کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ابن جمیل اس لیے ادا نہیں کر رہا کہ پہلے فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی بنا دیا ہے! جبکہ خالد سے تم زیادتی کر رہے ہو، کیونکہ اس نے اپنی ذرہیں اور سامان سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا دیا ہے، جبکہ عباس کی زکاۃ میرے ذمہ ہے، بلکہ زکاۃ سے ایک گنا زیادہ میرے ذمہ ہے)
نووی رحمہ اللہ "شرح مسلم" میں کہتے ہیں:
"اہل لغت کا کہنا ہے کہ: [حدیث میں مذکور] " اَلْأَعْتَاد " سے مراد جنگی سازو سامان ہے، اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ: انہوں نے خالد سے زکاۃ کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کہ انہوں نے ان جنگی آلات کو تجارتی سامان سمجھ لیا تھا[کیونکہ ان کے ہاں] اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہے، تو خالد نے انہیں کہا: "مجھ پر زکاۃ لاگو نہیں ہوتی" تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ خالد نے زکاۃ ادا نہیں کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے ان سے زکاۃ طلب کر کے زیادتی کی ہے؛ کیونکہ انہوں نے اپنے جنگی ساز و سامان کو سال ہونے سے قبل ہی اللہ کی راہ میں وقف کر دیا ہے، اس لیے اس پر زکاۃ نہیں ہے۔
یہاں اس بات کی احتمال بھی ہے کہ: اگر اس سامانِ تجارت پر زکاۃ واجب ہوتی تو لازمی تمہیں دے دیتا، اور بخیلی سے کام مت لیتا؛ کیونکہ انہوں نے تو نفلی طور پر تمام جنگی سامان ا للہ کی راہ میں دے دیا ہے، تو وہ واجب زکاۃ ادا کرنے سے کیوں گریز کریگا؟ اسی مفہوم کی وجہ سے کچھ اہل علم نے تجارتی سامان پر بھی زکاۃ واجب ہونے کا موقف اختیار کیا ہے، یہی موقف تمام سلف و خلف جمہور اہل علم کا ہے، لیکن داود کا یہ موقف نہیں ہے" انتہی
5- شافعی، احمد، عبد الرزاق، اور دارقطنی میں ابو عمرو بن حماس سے مروی ہے کہ ان کے والد نے ان سے کہا: "میں چمڑے کا کاروبار کیا کرتا تھا، تو میرے پاس عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ گزرے تو انہوں نے مجھے کہا: "اپنے مال کی زکاۃ ادا کرو"
میں نے کہا: میرا مال تو چمڑے کی شکل میں ہے!؟
تو انہوں نے کہا: اس کی قیمت لگاؤ اور پھر زکاۃ ادا کرو"
اس اثر کو البانی نے "ارواء الغلیل" : (828) میں ابو عمرو بن حماس کے مجہول ہونے کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے، لیکن ایک اور اثر اسی کی تائید کرتا ہے۔
6- عبد الرحمن بن عبد قاری کہتے ہیں کہ: "میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیت المال کا ذمہ دار تھا، چنانچہ جس وقت زکاۃ ادا کی جاتی تو تاجروں کے مؤجل اور معجل سارے تجارتی مال کا حساب لگاتے، اور پھر پورے مال میں سے زکاۃ وصول کرتے"
اس اثر کو ابن حزم نے "المحلى" (4/40) میں صحیح کہا ہے۔
7- بیہقی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں: "سامان میں اسی وقت زکاۃ ہوگی جب اسے تجارت کی غرض سے رکھا جائے"
اس اثر کو بھی ابن حزم نے "المحلى" (4/40) میں اور نووی نے "المجموع" (6/5) میں صحیح قرار دیا ہے۔
یہ تمام دلائل مجموعی طور پر تجارتی سامان پر زکاۃ لاگو ہونے پر دلالت کرتے ہیں، اگرچہ ان تمام دلائل کو انفرادی طور پر نقطہ چینی کا سامنا ہو سکتا ہے، لیکن یہ تمام دلائل جمع ہو کر اس موقف کو قوت بخشتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جمہور اہل علم تجارتی سامان میں زکاۃ لاگو ہونے کے قائل ہیں، اور زکاۃ واجب نہ ہونے کا موقف شاذ تصور کیا جاتا ہے۔
بلکہ ابن المنذر رحمہ اللہ نے تجارتی سامان پر زکاۃ واجب ہونے کے متعلق اجماع بھی نقل کیا ہے، اور اہل ظاہر جو کہ تجارتی سامان پر زکاۃ واجب نہ ہونے کے قائل ہیں ان کے موقف کو شاذ اور خارج از اجماع قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ائمہ اربعہ اور ساری امت -ماسوائے چند شاذ موقف والے افراد - اس بات پر متفق ہیں کہ سامانِ تجارت پر زکاۃ واجب ہے، چاہے تاجر مقیم ہو یا مسافر، یا اشیائے فروخت سستی خرید کر ذخیرہ کر ے اور فروخت کرنے کیلئے قیمت بڑھنے کا انتظار کر رہا ہو، یا دکاندار ہو، اسی طرح تجارت چاہے نئے کپڑے کی ہو یا پرانے کی کھانے پینے کا سامان فروخت کرے یا پھل فروٹ ، یا چمڑا وغیرہ ، یا مٹی سے بنے برتن وغیرہ فروخت کرے، یا غلاموں کی خرید و فروخت کا کاروبار ہو، یا گھوڑے ، خچر، گدھے، یا چارہ کھانے والی بکریاں وغیرہ فروخت کرے، سب پر زکاۃ لاگو ہوگی، اس لیے کہ شہروں میں رہنے والے افراد عام طور پر سامان تجارت کے مالک ہوتے ہیں، اور دیہاتوں میں رہنے والے افراد عام طور پر جانوروں کے مالک ہوتے ہیں، [تو سب پر معتبر شرائط کی موجودگی میں زکاۃ واجب ہوگی]" انتہی
"مجموع فتاوى ابن تیمیہ" (25/45)
واللہ اعلم.