سوموار 17 جمادی اولی 1446 - 18 نومبر 2024
اردو

دو مسجدیں قریب قریب ہیں، دوسری میں نمازیوں کی تعداد کم یا بالکل بھی نہیں ہے، تو کس مسجد میں نماز ادا کرے؟

سوال

ہمارے علاقے میں دو مسجدیں قریب ہی ہیں، ان میں سے ایک عام طور پر نمازیوں سے بھر جاتی ہے، جبکہ دوسری مسجد میں نمازی نہیں ہوتے، بلکہ بسا اوقات تو مسجد کھلتی ہی نہیں ہے، تو اس صورت میں کون سی مسجد میں نماز ادا کرنا افضل ہے؟ بھری ہوئی مسجد میں یا دوسری مسجد کو آباد کرنے کی نیت سے خالی مسجد میں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ: بھری ہوئی مسجد کا امام سنت کا خیال نہیں رکھتا، وہ اپنے کپڑے ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر رکھتا ہے، جبکہ دوسری مسجد کا امام قدرے بہتر ہے اور سنت کا اہتمام کرتا ہے، ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ ہمیں بتلائیں کہ کس مسجد میں نماز ادا کرنا ہمارے لیے بہتر ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

کثرت سے مسجدوں کا کسی علاقے اور محلے میں پایا جانا یہ خیر کی علامت ہے، اس سے لوگوں میں مسجد کے اندر نماز ادا کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی ہم کچھ معاملات پر متنبہ کرنا چاہیں گے:

1-مسجدیں بالکل قریب قریب نہیں بنانی چاہییں؛ تا کہ مسلمانوں میں تفریق پیدا نہ ہو، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ مسجد کی تعمیر میں فضول خرچی اور فخریہ انداز آ جائے، پھر نمازیوں کی تعداد نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کھولی ہی نہ جائے۔

2-دونوں مسجدوں میں جمعہ کی نماز ادا نہ کی جائے، بلکہ دونوں میں سے جو بڑی مسجد ہے وہیں پر نماز جمعہ ادا کی جائے، تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ایک ہی مسجد میں جمع ہوں۔

3-مسجد ایسے علاقے میں بنائی جائے جہاں پر مسجد موجود نہیں ہے، جہاں پہلے ہی مسجد موجود ہو وہاں مسجد نہیں بنانی چاہیے۔

دوم:

آپ نے جو صورت حال ذکر کی ہے اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پہلی مسجد میں ہی نماز ادا کی جائے؛ اس کی کئی وجوہات ہیں:

1-ایک مسجد میں سب لوگ جمع ہوں تو اس سے نمازیوں کے درمیان الفت بڑھے گی، اور آپس میں تعلقات مضبوط ہوں گے، مریض نمازیوں کی خبر گیری کا موقع ملے گا، کمزوروں کی مدد ہو گی، اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس کا جنازہ ادا ہو گا، اور اہل خانہ سے تعزیت ممکن ہو گی۔

2-جس مسجد میں پورے محلے کے لوگ نماز ادا کرتے ہوں وہاں نماز ادا کرنے سے ان کی تعلیم و تربیت کے مواقع بڑھ جائیں گے، لیکن اگر بکھر جائیں تو تعلیم و تربیت پر منفی اثرات رونما ہو ں گے، لہذا جب بھی کوئی عالم دین درس دے، یا خطاب کرے تو سب محلے والے یکساں طور پر مستفید ہو سکیں گے۔

3-دوران جماعت مسجد میں جس قدر نمازی زیادہ ہوں گے، ایسی جماعت اللہ تعالی کے ہاں اتنی ہی زیادہ محبوب ہوتی ہے۔

جیسے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک شخص کی دوسرے کے ساتھ مل کر با جماعت نماز تنہا نماز سے افضل ہے، تین آدمیوں کی جماعت دو آدمیوں کی جماعت سے زیادہ افضل ہے، اور جس قدر نمازیوں کی تعداد زیادہ ہو گی وہ اللہ تعالی کے ہاں اتنے ہی محبوب ہوں گے۔) اس حدیث کو ابو داود: (554) نسائی: (843) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر دو مسجدیں قریب ہوں ، اور ان میں سے ایک میں نمازی زیادہ ہوں تو زیادہ نمازیوں والی مسجد میں جانا افضل ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک شخص کی دوسرے کے ساتھ مل کر با جماعت نماز تنہا نماز سے افضل ہے ، ۔۔۔)

تو یہ حدیث عام ہے، چنانچہ اگر دو مسجدوں میں سے ایک کے نمازی زیادہ ہوں تو اس میں نماز ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع على زاد المستقنع" (4/150 ، 151)

ایک اور جگہ پر ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جماعت کروانے کی صلاحیت رکھنے والا شخص جو سرحد پر ڈیوٹی نہیں دے رہا اس کے لیے افضل ہے کہ وہ مسجد میں نماز ادا کرے؛ کیونکہ اگر وہ مسجد میں نہیں جاتا تو جماعت ہی نہیں ہوتی، مثلاً: ایک مسجد میں لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن جب وہ خاص شخص مسجد میں آئے توباجماعت نماز کا اہتمام ہو جاتا ہے، اور اگر وہ نہ جائے تو لوگ اپنی اپنی نماز پڑھ کر چلے جاتے ہیں ایسے شخص کے لیے مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا افضل ہے؛ کیونکہ یہ شخص اس مسجد میں اس لیے نماز پڑھنے جائے گا کہ مسجد آباد ہو، اگر نہیں جاتا تو مسجد کا فائدہ سامنے نہیں آتا اور یہ بات مناسب نہیں ہے کہ مسجد معطل ہو کر رہ جائے، اس لیے اس شخص کی اس چھوٹی مسجد میں نماز زیادہ نمازیوں والی مسجد سے افضل ہے۔

لیکن یہاں یہ بھی بات ذہن نشین رہے کہ: یہ دونوں مسجدیں بالکل قریب قریب نہیں ہونی چاہییں؛ کیونکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تمام لوگوں کا دو مسجدوں میں تقسیم ہونے کی بجائے ایک ہی مسجد میں جمع ہونا افضل ہے۔ اور اگر معاملہ ایسا ہو کہ ایک مسجد پرانی ہے اس میں 4، 5 افراد آتے ہیں، اور قریب ہی دوسری مسجد میں بہت زیادہ لوگ نماز پڑھتے ہیں ، اس صورت میں اگر یہ چھوٹی مسجد والے بغیر کسی تنگی کے بڑی مسجد میں جمع ہو جائیں تو یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک ہی مسجد میں جمع ہو کر نماز ادا کرنا افضل ہے؛ کیونکہ جس قدر جماعت کے افراد زیادہ ہوں گے اتنا ہی افضل ہو گا۔" ختم شد
"الشرح الممتع على زاد المستنقع" (4/150)

آپ اس امام کو نصیحت کرتے رہیں، امید ہے کہ اللہ تعالی اسے راہِ راست پر لے آئے، اور اسے سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے دے۔

آخری بات: ہم آپ کو یہ جواب بھی دے سکتے تھے کہ آپ ایسی مسجد میں نماز ادا کریں جہاں پر نمازیوں کی تعداد دوسری مسجد سے کم ہے؛ کیونکہ اس مسجد کے نمازی حقیقی سنتوں کو اچھا نہیں سمجھتے بلکہ حقیقی سنتوں پر عمل کرنے والوں سے عداوت رکھتے ہیں، آپ نے انہیں سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

تو اس صورت میں آپ کا ایسی مسجد میں نماز ادا کرنا جہاں پر سنت پر عمل کر سکیں بلا شک و شبہ افضل ہے۔

لیکن چونکہ ابھی تک معاملہ اس حد تک نہیں بگڑا تو ہم یہی سمجھتے ہیں کہ آپ ایک ہی مسجد میں نماز ادا کریں۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ آپ کو مزید کامیابی عطا فرمائے اور آپ کی رہنمائی فرمائے۔

ماخذ: الاسلام سوال و جواب