جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

کفریہ الفاظ زبان پر لانے سے مرتب ہونے والے نتائج

سوال

میں چند نوجوانوں کے ساتھ مل کر اپنے گھر میں شطرنج کھیل رہا تھا اور کسی غلطی پر ایک لڑکے نے کہا: "اگر اللہ تعالی آسمان سے یہاں اتر آئے تو تب بھی یہ حرکت نہیں کر سکتے، چاہے اللہ تعالی ذاتی طور پر یہاں آ جائے تب بھی یہ حرکت نہیں کر سکتے" [نعوذ باللہ] یہ بات سن کر میں کھڑا ہوا اور کہا: یہ بات مت کریں، یہ بات غلط اور حرام ہے، اس نے یہی بات میرے سامنے متعدد بار دہرائی، تو میں نے کہا: یعنی اس کا مطلب ہے کہ تم اپنی بات پر مصر ہو تو میرے گھر میں دوبارہ مت آنا، تو اس نے کہا: ٹھیک ہے، اور میرے گھر سے چلا گیا۔ تو مجھے میرے دوستوں نے کہا: آپ نے اس کے ساتھ صحیح نہیں کیا، بندہ آپ کے گھر میں تھا ، آپ کے لیے اس طرح اس کے ساتھ بات کرنا ضروری تو نہیں تھا۔ یہ بات حقیقت ہے کہ میں نے اس کے ساتھ یہ تعامل اللہ کے لیے کیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ: کیا میں ذات باری تعالی کے ساتھ استہزا سن کر خاموش رہوں، اور اپنا کوئی رد عمل نہ دوں؟ جیسے کہ میں نے اس واقعہ میں دیا ہے، اور میں کمزور ایمان کے درجے میں رہتے ہوئے بس اپنے دل میں ہی اس بات کو برا جانوں ؟ سوال میں مذکور نوعیت کی بات زبان سے کرنے اور پھر اس پر اصرار کرنے والے کا کیا حکم ہے؟ میرے رد عمل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ کے دوست نے جو بات کی ہے بہت ہی سنگین اور خطرناک بات ہے، کسی مسلمان کی زبان سے ایسے کلمات کا ادا ہونا بالکل روا نہیں ہے، یہ تو اللہ تعالی کے ساتھ کفر ہے؛ کیونکہ اس بات میں ذات باری تعالی کی اہانت اور گستاخی ہے، اللہ تعالی تو اس سمیت ساری دنیا کو تہہ و بالا کرنے پر قادر ہے، وہ چاہے تو سب کو یک لخت ایک لفظ "کُن" کہہ کر ہلاک کر دے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
ترجمہ: یقیناً جب وہ کسی کام کا ارادہ فرما لے تو اس کے لیے اس کا حکم صرف یہی ہوتا ہے کہ "کُن" یعنی ہو جا، تو وہ ہو جاتا ہے۔[یس: 82]

اسی طرح فرمایا:
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
 ترجمہ: اور انہوں نے اللہ تعالی کی قدر ایسی نہیں کی جیسی انہیں کرنی چاہیے تھی، حالانکہ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور لوگوں کے بنائے ہوئے شریکوں سے بالا تر ہے۔ [الزمر: 67]

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا يخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
 ترجمہ: یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟ آسمانوں اور زمین دونوں کے درمیان کی کل بادشاہت اللہ تعالیٰ ہی کی ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اللہ ہر چیز پر قادر ہے [المائدہ: 17]

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ
 ترجمہ: اور اگر آپ ان منافقین سے اس بابت پوچھیں گے تو وہ لازمی کہیں گے: ہم تو ویسے ہی ہنسی مزاح کر رہے تھے۔ آپ ان سے کہہ دیں: کیا اللہ تعالی، اللہ کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ تم مزاح کرتے ہو [65]اپنے عذر لنگ مت پیش کرو، تم ایمان کا اظہار کرنے کے بعد کفر کر چکے ہو۔ [التوبہ:65- 66]

دوم:

ایسی بات کرنے والے کو چاہیے کہ اللہ تعالی سے توبہ مانگے، اپنے ایمان کی تجدید کرے، اور کلمہ شہادت دوبارہ پڑھے، اللہ تعالی کی عظمت ، جلالت اور کبریائی کا اقرار کرے، اگر وہ اپنی اس بات پر ڈٹا رہے توبہ نہ کرے تو وہ کافر ، مرتد اور اسلام سے خارج ہے۔

سوم:

ہم نہیں سمجھتے کہ آپ نے رد عمل دیتے ہوئے کوئی غلطی کی ہے؛ کیونکہ غلطی کو غلط کہنا ضروری ہوتا ہے، اور سب سے بڑی غلطی ذات باری تعالی کے بارے میں غیر مناسب الفاظ کا استعمال اور استہزا ہے، اس لیے ایسی بات سن کر روکنے کی صلاحیت رکھنے والے کے لیے خاموش رہنا درست نہیں ہے۔ بلکہ حسب استطاعت روکنا لازم ہے، چاہے ہاتھ سے یا زبان سے روکے؛ کیونکہ محض دل میں برائی کو برا جاننا صرف اسی وقت جائز ہے جب ہاتھ یا زبان سے روکنا نا ممکن ہو، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان میں ہے کہ: (تم میں سے جو بھی برائی دیکھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اور اگر استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے، اور اگر استطاعت نہ ہو تو اپنے دل سے برا جانے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے۔) مسلم: (49)

آپ کے دوستوں کو بھی یہی چاہیے تھا کہ وہ بھی اس بات سے روکتے، اور صریح کفر سے منع کرتے، لیکن ان کے دلوں میں اللہ تعالی کی عظمت معمولی ٹھہری اسی لیے ان کے سامنے اللہ تعالی کی ذات کے متعلق نازیبا الفاظ اور کفر معمولی بن گیا۔

البتہ یہ ممکن ہے کہ اگر آپ اسے اپنے گھر سے نکالنے کی بجائے اچھے انداز سے بات چیت کا موقع دیں، اور توبہ و استغفار، ندامت اور پشیمانی کی دعوت دیں۔

لیکن اس بات کے امکانات ان کی موجودہ کیفیت کے سامنے بہت معمولی رہ جاتے ہیں ؛ کیونکہ وہ کھیلتے ہوئے ہونے والی غلطی کو تو برداشت نہ کریں، لیکن ذات باری تعالی کے متعلق خاموشی اختیار کریں۔

چہارم:

شطرنج کھیلنے سے اگر واجبات جیسے کہ نماز وغیرہ میں حرج پیدا ہو ، کھیل کے دوران جھوٹ یا گالم گلوچ جیسا کوئی اور حرام کام بھی ہو تو تمام علمائے کرام کے ہاں شطرنج کھیلنا حرام ہے۔

لیکن اگر شطرنج کھیلتے ہوئے واجب کاموں میں کوتاہی نہ ہو، نہ ہی کوئی اس میں حرام کام پایا جاتا ہو تو اس صورت میں اختلاف ہے۔

حنفی، مالکی، حنبلی اور بعض شافعی اہل علم پھر بھی اسے حرام ہی کہتے ہیں، شطرنج سے متعلق یہی فتوی صحابہ کرام سے بھی منقول ہے، اس کی تفصیل جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (14095 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

آپ یہاں یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ شطرنج کھیلنے کی وجہ سے کس طرح کفریہ کلمات درمیان میں آ گئے۔ اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔

چنانچہ آپ سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اس کھیل کو ترک کر دیں اور اللہ تعالی سے تو بہ مانگیں، ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کے لیے عمل کی توفیق ، اور راہ راست کی دعا کرتے ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات