اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

اپنی دولت کو سرمایہ کاری میں لگا کر اللہ کو ناراض کیے بغیر کیسے نفع کما سکتا ہے؟

سوال

ایک شخص کو اللہ تعالی نے دولت سے نوازا ہے، وہ اس دولت کو کس طرح سرمایہ کاری میں لگائے؟ کہ دولت بھی محفوظ رہے اور اللہ تعالی بھی ناراض نہ ہو اور منافع بھی ملتا رہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مال اس وقت اللہ تعالی کی نعمت ہوتا ہے جب اسے اللہ کی پسندیدہ جگہوں پر استعمال کیا جائے، اور وہ مال اللہ تعالی کی اطاعت اور بندگی میں معاون ہو۔ جبکہ یہی مال اللہ تعالی کی طرف سے زحمت ہو گا جب مالک اسے کسی غلط جگہ استعمال کرے، یا اپنے مالک کو تکبر اور حق ٹھکرانے پر ابھارے، یا مالک کو اطاعتِ الہی اور ذکر سے مشغول کر دے۔

اسی لیے مال کے فتنے سے خبردار کیا گیا ہے؛ کیونکہ عام طور پر مالدار شخص سرکشی میں مبتلا ہو کر اللہ تعالی کو بھول جاتا ہے، بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو مال میں اللہ تعالی کا حق ادا کرتے ہیں، اللہ تعالی نے واضح فرمایا ہے کہ آزمائش جس طرح نیکی اور نعمت سے ہوئی ہے اسی طرح بدی اور زحمت سے آزمائش ہوتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
ترجمہ: اور ہم تمہیں شر اور خیر دونوں کے ذریعے آزماتے ہیں، اور ہماری طرف ہی تم لوٹائے جاؤ گے۔[الانبیاء: 35]

اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اللہ کی قسم! مجھے تمہارے بارے میں غربت کا خدشہ نہیں ہے، لیکن مجھے اس چیز کا خدشہ ہے کہ تم پر دنیا ایسے کھول دی جائے گی جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کھول دی گئی تھی اور تم اسی دنیا کے لیے ایسے ہی مقابلے بازی کرنے لگو جیسے انہوں نے کی تھی، پھر یہ دنیا تمہیں بھی اسی طرح تباہ کر دے جیسے انہیں دنیا نے تباہ کیا تھا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (4015) اور مسلم : (2961) نے روایت کیا ہے۔

صحیح مسلم: (2742) میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (یقیناً دنیا میٹھی اور سر سبز ہے؛ پھر یقیناً اللہ تعالی تمہیں اس میں ذمہ داری دے گا اور دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ تم دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، یقیناً بنی اسرائیل میں پہلا فتنہ عورتوں کا تھا۔)

تاہم اگر اللہ تعالی کسی کو توفیق دے اور وہ حلال ذریعے سے کمائے اور حلال جگہ ہی اسے خرچ کرے، مختلف عبادات اور قربِ الہی کا موجب بننے والی جگہوں میں مال خرچ کرے تو واقعی مال اس کے حق میں نعمت ہے، وہ اس قابل ہے کہ لوگ اس کے بارے میں رشک کریں، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (بہترین اچھا مال وہ ہے جو اچھے مالک کی ملکیت ہو) اس حدیث کو امام احمد: (17096) نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح ادب المفرد: (299) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

ایسے ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے: (حسد صرف دو چیزوں میں جائز ہے: ایک شخص کو اللہ تعالی نے مال دیا اور اللہ تعالی اسے راہِ حق میں مال خرچ کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ اور ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی حکمت عطا کرے اور وہ اسی کی روشنی میں فیصلے کرے نیز یہ حکمت دوسروں کو بھی سکھائے ۔) اس حدیث کو امام بخاری: (73) اور مسلم : (816) نے روایت کیا ہے۔

دوم:

نیکی کے کاموں میں خرچ کرنے کے راستے بہت زیادہ ہیں، مثلاً: مساجد تعمیر کرنا، صدقہ کرنا، یتیموں کی کفالت کرنا، بیماروں اور محتاج لوگوں کی مدد کرنا۔ مال کے ذریعے اہل خانہ، اولاد اور رشتہ داروں میں خوشیاں بانٹنا، دولت کو بار بار حج و عمرے کے لیے استعمال کرنا، حفظ القرآن کے مدارس قائم کرنا، شرعی علم سکھانا، غریبوں کو قرض دینا، تنگ دست لوگوں کو مزید مہلت دینا، عوامی سطح کے رفاہی منصوبوں میں حصہ ڈالنا کہ جس سے ساری قوم کو فائدہ ہو مثلاً: با مقصد سیٹیلائٹ ٹی وی ، مفید اور کامیاب ویب سائٹس، اور اسی طرح کے بے شمار دیگر راستے کہ جن کا شمار اللہ تعالی ہی بہتر کر سکتا ہے، یہاں اہم بات یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا حقیقی مال وہی ہے جو وہ اللہ کے لیے پیش کر دے؛ کیونکہ اس کے اچھے نتائج اسے مرنے کے بعد نظر آئیں گے، لیکن جو مال وہ اپنے پاس محفوظ کرے تو وہ اس کا حقیقی مال نہیں ہے ، وہ تو اس کے ورثا کا مال ہے، یہی مفہوم صحیح بخاری: (6442) کی سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے کون ہے جو اپنے مال کی بجائے اپنے وارثوں کے مال سے محبت کرتا ہے؟) صحابہ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے تو کوئی ایسا نہیں ہے ، ہم میں سے ہر شخص کو اپنے مال سے ہی زیادہ محبت ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (انسان جو مال آخرت کے لیے آگے پیش کر دیا وہ اس کا حقیقی مال ہے، اور جو پیچھے چھوڑ دیا ہے وہ تو وارثوں کا ہے۔)

سوم:
اپنی دولت کو کہاں اور کیسے کاروبار میں لگائے؟ تو اس کا تعلق ماہرین تجارت سے ہے، تاہم ہم آپ کو عمومی ضوابط سے آگاہ کر دیتے ہیں، جن میں درج ذیل اہم ہیں:

  1. کسی بھی تجارتی منصوبے یا سرمایہ کاری کا آغاز کرنے سے پہلے اس کی شرعی حیثیت کے متعلق مکمل معلومات لیں۔
  2. سودی بینکوں میں سرمایہ مت رکھیں، اور اس کے جواز کا فتوی دینے والوں کے دھوکے میں مت آئیں؛ کیونکہ سود اللہ تعالی کی ناراضی اور برکت کے خاتمے کا سبب ہے، سودی لین دین کرنے والا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتا ہے۔
  3. ایسے لین دین سے بچیں جس میں شبہات پائے جاتے ہوں۔
  4. حرام مال کے نفس، اہل خانہ اور اولاد پر برے اثرات سے آگاہ رہیں۔
  5. آہستہ آہستہ آگے بڑھیں، کسی ایسے منصوبے کے دھوکے میں نہ آئیں جو آپ کو راتوں رات امیر بنانے کا جھانسا دے، اس منصوبے کا مکمل تجزیہ کریں اور صبر و تحمل سے کام لیں۔
  6. اللہ تعالی کی طرف سے ملی ہوئی اس نعمت کو ضائع کرنے سے بچیں کہ آپ کسی ایسے شخص کو تھما دیں جس پر کوئی اعتبار ہی نہ کرتا ہو۔
  7. کاروبار کرتے ہوئے سچ، امانت اور وضاحت سے کام کریں، دھوکا دہی اور غیر واضح چیزوں سے بچیں؛ کیونکہ ان امور سے بھی برکت حاصل ہوتی ہے اور منافع کے ساتھ اجر بھی ملتا ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا خریدار اور دکاندار کے بارے میں فرمان ہے: (اگر دونوں سچ بولیں اور ہر چیز واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے، اور اگر وہ چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کی بیع کی برکت مٹا دی جاتی ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2097) اور مسلم : (1532) نے روایت کیا ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے مال میں برکت پیدا فرمائے، اور آپ کو اس میں اضافے کی توفیق دے، پھر اسے رضائے الہی کے موجب کاموں میں استعمال کرنے کی توفیق دے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب