جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

بيٹى كے مہر سے اشياء كى فہرست سے دستبردار ہونا سستى و كاہلى تو نہيں كہلاتا

131621

تاریخ اشاعت : 15-12-2012

مشاہدات : 3246

سوال

ميں مساجد ميں درس ديتا اور لوگوں كو تبليغ دين كا كام كرتا ہوں، اكثر مساجد ميں شادى اور مہر ميں آسانى كرنے كے متعلق بات كى، اب ايك نوجوان جو دينى اور اخلاقى اعتبار سے سليم ہے نے ميرى بيٹى كا رشتہ مانگا تو ميں نے اللہ سے اجروثواب كى نيت كرتے ہوئے اس سے بيٹى كا نكاح كر ديا، اس نوجوان نے مجھے بھى منقولات كى فہرست لكھنے كا كہا، لوگوں كى عادت ہے كہ ان منقولات ميں بہت زيادتى كرتے ہيں جن اشياء كى بنا پر اكثر نوجوان شادى نہيں كر پاتے.
چنانچہ ميں نے فہرست لكھتے ہوئے كہا: ميں كسى بھى چيز كى تحديد نہيں كرتا، اور اس ميں درج ذيل آيت كريمہ لكھ دى: اللہ كا فرمان ہے:
تو اگر تم ميں سے كوئى كسى پر اعتماد كرے تو وہ جس كے پاس امانت ركھى گئى ہے وہ اس كى امانت كو واپس كر دے، اور اللہ تعالى جو كہ اس كا پروردگار ہے سے ڈرے اور اس كا تقوى اختيار كرے، اور تم گواہى مت چھپاؤ، اور جو كوئى بھى گواہى چھپائيگا تو اس كا دل گنہگار ہے، اور جو بھى تم عمل كر رہے ہو اللہ تعالى ان كا خوب علم ركھنے والا ہے .
ميرے پيارے بيٹے ميں نے تمہيں اپنى بيٹى كا امنتدار بنايا ہے، تو كيا تم اس كے گھر كى امانت نہيں ركھو گے، اللہ سبحانہ و تعالى سے ميرى دعا ہے كہ تمہارے مابين دائمى محبت و مودت اور رحمت پيدا فرمائے، اور تم دونوں كو بھلائى و خير ميں جمع ركھے.
ميرا بھائى مجھے كہنے لگا: تم نے اپنى بيٹى كے حق ميں كوتاہى سے كام ليا ہے، تو كيا ميں نے جو كچھ كيا ہے وہ واقعى بيٹى كے حق ميں كوتاہى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال نمبر ( 12572 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ شريعت مطہرہ مہر ميں آسانى و تخفيف لائى ہے، اور اسى ميں خاوند اور بيوى دونوں كى مصلحت و فائدہ پايا جاتا ہے.

جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ وعليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سب سے بہتر نكاح آسانى والا نكاح ہے "

اسے ابن حبان نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3300 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك دوسرى روايت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سب سے بابركت وہ عورت ہے جس خرچ كے اعتبار سے آسان ہو "

مسند احمد حديث نمبر ( 24595 ) اسے حاكم نے صحيح قرار ديا اور امام ذہبى نے اس كى تصديق كى ہے، اور عراقى " تخريج احاديث الاحياء " ميں اس كى سند كو جيد قرار ديتے ہيں.

آپ نے معاملات ميں آسانى پيدا كرنے كى دعوت دے كر بہت اچھا كام كيا ہے، اور آپ نے اپنى بيٹى كے ساتھ جو سلوك كيا وہ بھى بہت اچھا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے ليے اجروثواب اور آپ كى بيٹى كے ليے سعادت و خوشبختى اور توفيق لكھ دے.

اور مہر بيوى كا حق ہے اور اسے حق ہے كہ مہر سے جو بھى چاہے اس سے دستبردار ہو سكتى ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم عورتوں كو ان كے مہر خوشدلى كے ساتھ دو اور اگر وہ اس ميں سے اپنى خوشى سے كچھ ہبہ كر ديں تو تم اسے خوشدلى كے ساتھ كھاؤ النساء ( 4 ).

اور جب عورت شروع ميں ہى اپنے گھر والوں كى راہنمائى كى بنا پر مہر ميں تخفيف كر دے تو وہ بہت اچھا كام كرتى ہے.

آپ كا يہ فعل سستى و كوتاہى شمار نہيں كيا جائيگا اور آپ كو اس پر نادم نہيں ہونا چاہيے، آپ نے اللہ سبحانہ و تعالى سے اجروثواب چاہا ہے، اور معاملہ بالكل ايسا ہى ہے جيسا آپ نے اشارہ بھى كر ديا، كہ مہر مقيد كرنے سے نہيں، بلكہ اعتبار تو خاوند كى اصلاح كا ہے، اس ليے اگر خاوند نيك و صالح ہو تو پھر مہر تھوڑا ہونے كا كوئى نقصان نہيں، اور اگر خاوند ہى صحيح نہ ہو تو پھر جتنا بھى مہر زيادہ ہو اسے روك نہيں سكتا.

آپ معاملہ اللہ تعالى كے سپرد كرتے ہوئے اللہ كے ساتھ حسن ظن ركھيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنے نيك و صالح بندوں كى حفاظت فرماتا، اور اپنے نيك عمل كرنے والے اپنے اولياء كى تكريم فرماتا ہے.

اور نيك و صالح اور اولياء كى بہتر زندگى كى ضمانت ديتے ہوئے بہتر بدلہ دينے كا وعدہ كر ركھا ہے جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

جس كسى نے بھى نيك و صالح عمل كيے چاہے وہ مرد ہو يا عورت اور وہ مومن ہو، تو ہم اسے اچھى زندگى ديں گے، اور جو وہ عمل كرتے رہے ان كا بہتر بدلہ اور اجر ديں گے النحل ( 97 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور جو كوئى بھى اللہ كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے روزى بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كا وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو كوئى اللہ پر توكل كرے تو اللہ عالى اس كے ليے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے رہےگا، يقينا اللہ تعالى نے ہر چيز كے ليے ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے ا لطلاق ( 2 ـ 3 ).

آپ كے ليے پہلے نيك و صالح لوگ جنہوں نے شادى ميں آسانى پيدا كيں بہترين نمونہ ہيں، ان ميں كچھ تو ايسے بھى تھے جنہوں نے اپنى بيٹى كو تيار كر كے خاوند كے ليے پيش كر ديا اور شادى كے معاملہ ميں خاوند پر كوئى بھى بوجھ نہيں ڈالا.

ہمارى اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو توفيق سے نوازے اور ثابت قدم ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب