اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ضعیف حدیث میں مذکور الفاظ کے ذریعے دعا کرنے کا حکم

سوال

اگر کوئی دعائیہ الفاظ ضعیف یا موضوع حدیث میں ہوں اور ان میں کسی قسم کی شرعی قباحت بھی نہ ہو تو کیا ہمارے لیے ان الفاظ کو مسنون سمجھے بغیر دعا میں شامل کرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

دعا دو طرح کی ہوتی ہے:

پہلی قسم: ایسی دعا جو کسی وقت ، جگہ، مخصوص عبادت، معین تعداد یا فضیلت کے ساتھ شریعت میں بتلائی گئی ہے، مثلاً: نماز میں دعائے استفتاح، بیت الخلاء میں داخل ہونے کی دعا، اور اسی طرح سوتے ہوئے پڑھی جانے والی دعائیں، یا مسجد میں داخل ہونے کی دعا وغیرہ۔

تو ان دعاؤں میں کسی ایسی دعا کو شامل کرنا جائز نہیں ہے جو شریعت میں ثابت نہیں ہیں، اسی طرح ان دعاؤں کے قبول ہونے کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ یہ دعائیں صرف اللہ تعالی کے لیے خالص ہو کر کی جائیں، اسی طرح ان دعاؤں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی اور اقتدا بھی شرط ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی ایسا ورد بنا لینا جو شریعت میں نہیں ہے، یا ایسے ذکر کو سنت سمجھنا جو شریعت میں نہ ہو تو اس سے منع کیا گیا ہے، دوسری طرف شرعی طور پر ثابت دعاؤں اور اذکار میں تمام کے تمام صحیح مقاصد اور اہداف پورے حاصل کرنے کا سامان موجود ہے، نیز شرعی اذکار اور دعاؤں کو چھوڑ کر خود ساختہ الفاظ وہی اپناتا ہے جو جاہل ہے یا افراط و تفریط کا شکار ہے، یا شرعی حد سے تجاوز کرنے والا ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (22/511)

علامہ معلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اس شخص کا سودا کتنے خسارے اور گھاٹے کا ہے جو کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں ثابت شدہ دعاؤں کو یکسر چھوڑ دیتا ہے اور ایسی روایات کے پیچھے لگ جاتا ہے جو خود ساختہ ہیں، اور انہیں بڑی پابندی سے پڑھتا ہے؛ کیا یہ ظلم اور زیادتی نہیں ہے؟!" ختم شد
"العبادة" (524)

ہونا تو یہ چاہیے کہ مختلف اوقات اور حالات سے متعلق جو دعائیں اور اذکار نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہیں انہی کی پابندی کی جائے ۔

یہی وجہ ہے کہ متعدد اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت شدہ دعائیں جمع کر دی ہیں تا کہ لوگوں کی ان تک رسائی آسان ہو جائے اور وہ غیر ثابت شدہ ، خود ساختہ بدعتی دعاؤں سے بچ جائیں۔

جیسے کہ امام طبرانی رحمہ اللہ اپنی کتاب: "الدعاء" کے مقدمے میں (صفحہ: 22) پر لکھتے ہیں کہ:
"میں نے یہ کتاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام دعاؤں کو جمع کرنے کے لئے لکھی ہے، اس کام کے لئے مجھے اس چیز نے ابھارا کہ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا کہ وہ مسجع دعاؤں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، کچھ لوگ قصہ گو لوگوں کی بنائی ہوئی سال کے ہر دن کے لئے مخصوص دعاؤں پر دھیان دے رہے ہیں یہ سب کی سب دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہیں بلکہ کسی صحابی سے بھی نہیں ملتیں، یہاں تک کہ کسی تابعی سے بھی منقول نہیں ہیں، پھر مزید برآں یہ بھی کہ دعا میں سجع کلامی اور حد سے تجاوز کرنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکروہ گردانا ہے، ان سب چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول دعاؤں کو ان کی اسانید کے ساتھ اپنی اس تالیف میں جمع کر دیا ہے۔" ختم شد
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (11017) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوسری قسم: دعا کی یہ قسم دعائے مطلق کہلاتی ہے، اس سے مراد وہ دعائیں ہیں جو انسان ایسے حالات اور اوقات میں مانگتے ہیں جہاں پر شریعت میں معین کردہ کوئی دعا وارد نہیں ہے، مثلاً: رات کی آخری تہائی یا دیگر قبولیت کے اوقات میں دعا کرنا۔

تو اس قسم کی دعاؤں کے لئے شریعت کی طرف سے دعا کے الفاظ کی کوئی قید نہیں ہے، بلکہ یہ ہر دعا کرنے والے کے اختیار میں ہے، انسان اللہ تعالی سے اپنی ضرورت اور حاجت پوری کرنے کی دعا کرے، اس قسم کی دعاؤں میں نیک لوگوں کے دعائیہ الفاظ سے استفادہ کر سکتا ہے، اسی طرح جن بعض ضعیف احادیث میں دعائیہ الفاظ آئے ہیں انہیں بھی اپنی دعا میں استعمال کر سکتا ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ ان میں جامع الفاظ پر مشتمل دعا ہو، یا اسی طرح اللہ تعالی کی بہترین انداز میں حمد و ثنا ہو، یا مسلمان کے دل کو موہ لینے والے الفاظ اس میں شامل ہوں؛ تاہم اس کے لئے یہ شرط ہے کہ دعائیہ الفاظ میں کوئی خرابی نہ ہو، نہ ہی ان الفاظ کے لئے کوئی فضیلت ذہن میں رکھے، اور نہ ہی ان الفاظ کو اپنی دعا کا لازمی حصہ بنائے، چنانچہ اگر کوئی شخص کبھی کبھار ان الفاظ کے ذریعے دعا مانگے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اگر ان الفاظ کو پابندی سے اپنی دعا کا حصہ بناتا ہے تو یہ انہیں سنت کا مقام دینے کے مترادف ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب