جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

سورت فاتحہ کی فضیلت و اہمیت، اور چند فضائل کا تذکرہ

سوال

سورت فاتحہ کی کیا اہمیت ہے اور اس کی کتنی فضیلت ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سورت فاتحہ کی بہت عظیم اہمیت اور فضیلت ہے، اس سورت کے بہت سے فضائل ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  • سورت فاتحہ نماز کا رکن ہے، چنانچہ سورت فاتحہ کے بغیر نماز صحیح ہو ہی نہیں سکتی؛ جیسے کہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے سورت فاتحہ نہیں پڑھی) اس حدیث کو امام بخاری: (756) اور مسلم : (394)نے روایت کیا ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سورت میں سورت فاتحہ کے واجب ہونے کا بیان ہے کہ سورت فاتحہ پڑھنا لازم ہے، چنانچہ سورت فاتحہ کا متبادل کوئی نہیں ہے، سوائے ایسے شخص کے لیے جسے سورت فاتحہ نہیں آتی، یہ امام مالک، شافعی، اور صحابہ و تابعین سمیت دیگر اہل علم پر مشتمل جمہور علمائے کرام کا موقف ہے۔" ختم شد

  • سورت فاتحہ قرآن کریم کی افضل ترین سورت ہے، چنانچہ امام ترمذی نے حدیث نمبر: (2875) کے تحت ایک روایت ذکر کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (کیا آپ یہ پسند کرتے ہیں کہ میں آپ کو ایسی عظیم سورت سکھاؤں کہ اس جیسی سورت تورات، انجیل، اور زبور سمیت قرآن مجید میں بھی نازل نہیں ہوئی؟!) تو ابی بن کعب نے کہا: جی ہاں ، اللہ کے رسول مجھے سکھائیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  (تم نماز میں کیسے قراءت کرتے ہو؟)  ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب نے سورت فاتحہ کی تلاوت شروع کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تورات، انجیل، زبور اور قرآن میں اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی۔) اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔
  • سورت فاتحہ ہی { سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِي} یعنی بار بار پڑھی جانے والی سات آیات ہیں۔ اسی سورت کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: {وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنْ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ } ترجمہ: یقیناً ہم نے آپ کو سات آیات جو کہ بار بار پڑھی جانی والی ہیں اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔[الحجر: 87] اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری: (4474) میں ابو سعید المعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فرمایا: (تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے تمہیں قرآن کریم کی عظیم ترین سورت ضرور سکھلاؤں گا) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، پھر جب مسجد سے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ نے نہیں فرمایا تھا کہ میں تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے پہلے قرآن کریم کی عظیم ترین سورت ضرور سکھلاؤں گا؟! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (وہ عظیم سورت { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} ہے، اور یہی سورت سبع المثانی بھی ہے اور مجھے دیا گیا قرآن عظیم بھی ہے۔)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سورت فاتحہ کے سبع المثانی نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں اختلاف ہے، تو بعض وجہ تسمیہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ نام ہر رکعت میں پڑھے جانے کی وجہ سے ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سورت کے ذریعے اللہ تعالی کی ثنا بیان کی جاتی ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اس امت کے لیے استثنائی سورت ہے اس امت سے قبل کسی کو یہ سورت عطا نہیں کی گئی۔" ختم شد

  • اس سورت میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور بزرگی بیان کرنے کو بارگاہ الہی میں وسیلہ بنایا گیا ہے، اسی طرح اللہ تعالی کے سامنے اللہ تعالی کی الوہیت اور وحدانیت کو وسیلہ بنا کر سب سے اہم ترین سوال اور کامل ترین مرغوب چیز مانگی گئی ہے اور وہ ہے ہدایت۔
    دیکھیں: "مدارج السالکین" (1/24)
  • سورت فاتحہ مختصر سی سورت ہونے کے باوجود توحید کی تینوں اقسام : توحید ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید اسما و صفات پر مشتمل ہے۔
    دیکھیں: "مدارج السالکین" (1/24-27)
  • سورت فاتحہ میں قلبی اور بدنی دونوں قسم کی شفا موجود ہے۔
    جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
    "سورت فاتحہ میں قلبی شفا بڑے ہی کامل انداز میں موجود ہے؛ کیونکہ قلبی بیماریوں کا دار و مدار دو بنیادوں پر ہوتا ہے:1) علم فاسد ہو، 2) ارادہ فاسد ہو۔ ان دونوں بنیادوں پر دو مہلک نتیجے برآمد ہوتے ہیں: گمراہی اور غضب۔ چنانچہ گمراہی فاسد علم کا نتیجہ ہوتی ہے، جبکہ غضب فاسد ارادے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اور یہی دونوں بیماریاں تمام قلبی بیماریوں کا نچوڑ ہیں۔ اب صراط مستقیم کا مل جانا گمراہی کی بیماری سے شفا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی سے ہدایت مانگنا ہر بندے پر سب سے بڑا فریضہ ہے، یہ فریضہ اللہ تعالی نے ہر دن اور رات کی سب نمازوں میں فرض قرار دیا ہے؛ کیونکہ انسان کو ہدایت کی ہر معاملے میں بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے، نیز یہ ایسی دعا ہے کہ اس دعا کا کوئی اور متبادل بھی نہیں ہے۔
    نیز آیت کریمہ: {
    إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} کو علمی، عملی، ماحول اور معرفت ہر اعتبار سے علمی جامہ پہنانے سے قلبی اور ارادی خرابیوں سے نجات ملتی ہے۔
    جبکہ اس سورت میں بدنی شفا بھی ہے، ہم اس کے لیے حدیث میں مذکور بدنی شفا کا تذکرہ کریں گے، اور اسی طرح طبی قواعد اور مشاہداتی تجربوں کو بھی بیان کریں گے۔

حدیث میں ہے کہ: صحیح بخاری میں ابو متوکل ناجیؒ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چند صحابہ کرام عرب کے کسی قبیلے کے قریب سے گزرے۔۔۔ اور سورت فاتحہ کے ذریعے دم کرنے کی مکمل روایت بیان کی، پھر کہا: اس حدیث میں آیا ہے کہ بچھو کے کاٹے ہوئے مریض کو سورت فاتحہ سے شفا ملی، اور دوا کی ضرورت ہی نہ رہی، بلکہ سورت فاتحہ کا اثر وہاں بھی ہوا جہاں کوئی دوا اثر نہیں کر رہی تھی۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ جس شخص کو دم کیا گیا تھا وہ دم کے قابل نہیں تھا یا تو اس لیے کہ وہ قبیلہ ہی مسلمان نہیں تھا یا پھر اس لیے کہ وہ قبیلے والے کنجوس اور بخیل تھے، تو اگر دم کے قابل شخص کو دم کیا جائے تو پھر کتنے ہی خوب نتائج برآمد ہوں گے!" ختم شد
"مدارج السالکین" (1/52-55)

ابن قیم رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ:
"مجھے طواف وغیرہ کے دوران بسا اوقات ایسا شدید درد اٹھتا کہ میں حرکت نہیں کر سکتا تھا، تو میں ایسی کیفیت میں فوری طور پر سورت فاتحہ پڑھ کر درد والی جگہ پر ہاتھ پھیرتا تو درد ایسے رفو ہو جاتا جیسے تھا ہی نہیں، میں نے اس چیز کا تجرباتی مشاہدہ کئی بار کیا ہے، اسی طرح زمزم کا پیالہ بھر کر اس پر سورت فاتحہ پڑھ کر پیتا تو مجھے بہت فائدہ اور توانائی حاصل ہوتی کہ کسی دوا سے اتنی نہ ملتی تھی۔" ختم شد
"مدارج السالکین" (1/58)

  • سورت فاتحہ میں تمام مذاہب باطلہ اور فرقوں کا رد ہے، اسی طرح اس امت کے تمام بدعتی گروہوں کی گمراہی کا بھی رد ہے۔
    اس بات کی وضاحت مفصل اور مجمل دونوں طریقوں سے ممکن ہے:

وہ اس طرح کہ: "صراط مستقیم" میں معرفتِ حق اور حق کی بالا دستی سمیت ہر مقام پر حق کی ترجیح ، حق سے محبت ، حق کے لیے اطاعت گزاری ، حق کی دعوت ،اور حسب استطاعت دشمنانِ حق کے خلاف جہاد سب چیزیں شامل ہیں۔

اور حق وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام کا طریقہ تھا، اسی طرح اسما و صفاتِ باری تعالی، توحید امر و نہی سمیت جنت و جہنم کے بارے میں جو بھی علمی اور عملی طور پر صحابہ کرام سے منقول ہے ؛ حق ہے۔ ایسے ہی راہ الہی کے مسافروں کے درجات یعنی ایمان کے درجات کے بارے میں جو کچھ آیا ہے؛ وہ حق ہے، تو ان سب چیزوں میں وہی بات مسلَّم حق ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے، لوگوں کے ذاتی اقوال، کیفیات، احوال، افکار اور اصطلاحات حق میں شامل نہیں۔
 "مدارج السالکین" (1/58)

  • سورت فاتحہ میں سابقہ تمام آسمانی کتابوں کی تعلیمات موجود ہیں۔
    "مدارج السالکین" (1/74)
  • سورت فاتحہ میں بہترین دعائیں ہیں۔
    جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں نے سب سے مفید دعا کے بارے میں غور و فکر کیا تو وہ مجھے اللہ تعالی کی رضا کا باعث بننے والے اعمال کی توفیق کی صورت میں نظر آئی، پھر جب مزید غور کیا تو یہ دعا سورت فاتحہ میں {
    إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ} [یعنی تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے ہمہ قسم کی مدد طلب کرتے ہیں۔] کی صورت میں نظر آئی۔" ختم شد

"مدارج السالکین" (1/78)

خلاصہ یہ ہے کہ: سورت فاتحہ میں دنیا و آخرت کی ہر قسم کی خیر اور سعادت موجود ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فاتحۃ الکتاب، ام القرآن، سبع المثانی، کامل شفا، مؤثر دوا، بہترین دم، خزانوں اور کامیابیوں کی کنجی، جسمانی طاقت کی محافظ، غموں ،پریشانیوں ، خدشات اور مشکلات کے لیے تریاق سورت فاتحہ ہے، البتہ یہ تمام چیزیں اس شخص کو حاصل ہوتی ہیں جو سورت فاتحہ کا مقام حقیقی انداز میں پہچانے، سورت فاتحہ کے حقوق مکمل ادا کرے، بیماری سے شفا یابی کے لیے مناسب اور موزوں طریقہ اپنائے، اور اس راز کو حاصل کر لے جس کی وجہ سے اس سورت کو اتنا بڑا مقام دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تمام چیزیں جب چند صحابہ کرام میں مکمل تھیں تو بچھو اور سانپ کے ڈسے ہوئے شخص کو صحابہ کرام نے سورت فاتحہ سے دم کیا تو اسے فوری طور پر شفا حاصل ہو گئی، اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابی سے پوچھا: (آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ سورت فاتحہ دم بھی ہے؟!)
اگر کسی کو توفیق ملے ،نورِ بصیرت سے اتنی مدد حاصل ہو کہ وہ اس سورت کے رازوں سے پردہ اٹھا سکے اور سمجھ سکے کہ اس سورت میں عقیدہ توحید، ذات باری تعالی اسما و صفات اور افعال الہیہ، شریعت تقدیر اور آخرت کا ثبوت، خالص توحید ربوبیت اور الوہیت، اللہ تعالی پر کامل توکل، ہر معاملہ کامل اختیار رکھنے والی ذات باری تعالی کے سپرد کرنا کہ جس کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور اسی کے ہاتھ میں ہر قسم کی خیر ہے، بلکہ تمام معاملات اسی کے سپرد ہیں، اس سورت میں دونوں جہانوں میں سعادت کی بنیاد یعنی صرف اللہ تعالی کے سامنے عرضی گزاری بھی ہے۔ ہدایت کے مفہوم کو دونوں جہانوں میں حصولِ فوائد اور نقصانات سے بچاؤ کے لیے کیسے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟ اس سورت سے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ہر طرح کی کامل اور مطلق کامیابی اسی ہدایت کے ملنے سے منسلک ہے۔ جسے یہ تمام باتیں معلوم ہو جائیں تو اسے بہت سی ادویات اور دم کی ضرورت نہیں رہتی، سورت فاتحہ کے ذریعے انسان خیر و برکتوں کے دروازے کھلوا سکتا ہے، نیز اسی سورت کی بدولت شر اور شر کے اسباب سے بچ بھی سکتا ہے۔" ختم شد
"زاد المعاد" (4/318)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب