اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ادنی اور اعلی ملازمتوں اور پیشوں کے متعلق اسلام کا موقف

سوال

کیا اسلام کچھ ملازمتوں اور پیشوں کے بارے میں یہ موقف رکھتا ہے کہ وہ ابتر یا برتر ہیں؟ کیا انسان بڑی پوسٹوں اور مناصب کی تمنا کرے؟ یا یہ اللہ تعالی کی تقسیم پر رضا مندی کے منافی بات ہے؟ یہ بھی بتلائیں کہ تمنا اور اللہ تعالی کی تقسیم پر رضا مندی دونوں میں تعارض کب پیدا ہوتا ہے؟ اگر کوئی انسان معاشرے میں پائے جانے والے بڑے عہدوں کی تمنا کرے تو کیا یہ دنیا سے زہد سے متصادم چیز ہے؟ یعنی بڑے عہدے کی تمنا کیا محض دنیاوی چاہت کے زمرے میں آتا ہے یا یہ معمول کی چیز ہے اس سے شریعت منع نہیں کرتی۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی نے دنیا آخرت کی تیاری کے لیے بنائی ہے، چنانچہ انسان دنیا کے ذریعے آخرت کی تیاری کرتا ہے اور دنیا کو آخرت کے لیے معاون بناتا ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں یہ واضح فرمایا کہ زمین اور اس میں پائی جانے والی ہر چیز انسان کے لیے ہے تا کہ ان چیزوں کے ذریعے وہ آخرت کی تیاری کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعاً
ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے ہی زمین میں جو کچھ ہے پیدا کیا ہے۔[البقرۃ: 29]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
 ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو مسخر بنایا لہذا تم اس کے اطراف و اکناف میں چلو اور اللہ کے رزق میں سے کھاؤ، اور اسی کی طرف تم نے اکٹھے ہونا ہے۔[الملک: 15]

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی: اللہ تعالی نے حکم دیا کہ تم زمین میں جہاں مرضی چلو، اس کے مختلف علاقوں اور گوشوں میں بار بار آؤ اور جاؤ، تلاش معاش کے لیے اور تجارت کرنے کے لیے۔" ختم شد
"تفسير ابن كثير" (8/179)

بہت سی آیات اور احادیث میں روزی کمانے کی ترغیب پائی جاتی ہے کہ زمین میں تلاش معاش کے لیے دوڑ دھوپ کرو، اس لیے کہ تم دولت کماؤ صرف جمع کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ آپ کو دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، آپ اس دولت کے ذریعے صلہ رحمی کریں، اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کے لیے اس دولت سے مدد حاصل کریں۔

ابن قیم رحمہ اللہ دولت کی فضیلت اور اہمیت کے بارے میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر مال کو خیر قرار دیا ہے، مثلاً: فرمانِ باری تعالی ہے: كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْراً الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ ترجمہ: جب تم میں سے کسی کو موت آئے تو خیر یعنی مال چھوڑنے کی صورت میں والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت لکھنا فرض قرار دے دیا گیا ہے۔[البقرۃ: 180] اسی طرح وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ ترجمہ: یقیناً انسان خیر یعنی مال سے بہت زیادہ محبت کرنے والا ہے۔[العادیات: 8] ۔۔۔ پھر اللہ تعالی نے یہ بتلایا کہ اللہ تعالی نے مال کو جان کے تحفظ کا ذریعہ بنایا ہے، اسی لیے مال کی حفاظت کا حکم بھی دیا چنانچہ عورتوں ، بچوں اور بیوقوف لوگوں سمیت دیگر افراد کو مال دینے سے روکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی مال کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: (پاکیزہ مال جب کسی نیک فرد کی ملکیت ہو تو سب سے اچھا مال ہوتا ہے۔) اس حدیث کو امام احمد نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ اسی طرح سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں: "دولت جمع کرنے والے ایسے شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو حلال ذرائع سے دولت جمع کرتے ہوئے یہ نیت نہیں کرتا کہ : میں اس دولت کے ذریعے بھکاری پن سے بچوں گا، اور صلہ رحمی کروں گا، اور دولت کا مالی حق ادا کروں گا۔" ابو اسحاق سبیعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "سلف صالحین دولت کو دین کے معاون سمجھا کرتے تھے" اسی طرح محمد بن منکدر رحمہ اللہ کہتے ہیں: " مالی فراوانی ؛تقوی کے لیے بہترین معاون ہے۔" سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "آج کل کے دور میں دولت مومن کا اسلحہ ہے۔" یوسف بن سباط رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جب سے دنیا پیدا کی گئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک دولت اتنی فائدہ مند نہیں ہوئی جتنی آج ہے۔۔۔" اللہ تعالی نے مال کو بدنی حفاظت کا سبب بنایا ہے، اور جب بدن محفوظ ہو گا تو عقل بھی محفوظ ہو گی اور یہی عقل معرفتِ الہی کا ذریعہ ہے، اسی کی وجہ سے ایمان لاتے ہیں، اللہ تعالی کے رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں، اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں، ہمیشہ اللہ تعالی کی جانب رجوع کرتے ہیں، لہذا دولت دنیا کی آبادکاری کی باعث ہے، اسی طرح اخروی کامیابی کی بھی باعث ہے۔۔۔

دولت کے چند فوائد: دولت کی موجودگی میں انسان عبادت اور اطاعت بجا لاتا ہے، دولت کے ذریعے ہی حج اور جہاد کا دروازہ کھلا ہے، دولت ہو تو انسان واجب اور مستحب اخراجات کرتا ہے، اسی کے ذریعے غلام آزاد کرنے کی نیکی کی جاتی ہے، اللہ کی راہ میں چیزیں وقف ہوتی ہیں، مساجد کی تعمیر ہوتی ہے، پل وغیرہ بنتے ہیں۔ دولت کے ذریعے ہی نکاح ہوتا ہے جو کہ تنہائی میں نفل عبادات کرنے سے بھی زیادہ افضل ہے، اسی طرح دولت اخلاقی قدر؛ مروت کی بنیاد ہے، جود و سخا کی صفت بھی دولت کے ذریعے ہی رونما ہوتی ہے، دولت ہو تو عزت محفوظ ہوتی ہے، دولت کے ذریعے انسان دوستوں اور بھائیوں کے دل موہ لیتا ہے، دولت خرچ کر کے بلند درجات حاصل کیے جاتے ہیں، دولت خرچ کر کے ان لوگوں کی رفاقت حاصل ہو سکتی ہے جن پر اللہ تعالی نے انعام کیا ہے، بلکہ دولت تو جنت کے اعلی بالا خانوں تک پہنچنے کی سیڑھی ہے، اسی دولت کی وجہ سے انسان نچلے ترین گڑھے تک بھی گر سکتا ہے، دولت معزز شخص کی عزت کا باعث ہوتی ہے، جیسے سلف صالحین میں سے کسی نے کہا: "عزت کام کرنے سے ملتی ہے اور کام مال کے بغیر نہیں ہوتے۔" ایسے ہی کچھ سلف صالحین تو ایسے بھی ہیں جو دعا ہی یہ کیا کرتے تھے: "یا اللہ! میں تیرے ان بندوں میں سے ہوں جس کے لیے دولت انتہائی ضروری ہے۔" دولت اللہ تعالی کے بندے پر راضی ہونے کے اسباب میں شامل ہے، بالکل ایسے ہی دولت اللہ تعالی کی ناراضی کا سبب بھی ہے۔" مختصراً ختم شد
"عدة الصابرين" (ص221 – 223)

دولت کے ذریعے حاصل ہونے والے اتنے عظیم مقاصد کو پانے کے لیے انبیائے کرام اور رسولوں نے بھی محنت مزدوری کی ہے، کچھ نے مختلف پیشے اپنائے ہیں، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس نے بکریاں ضرور چَرائی ہیں۔)تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام نے آپ سے پوچھا: آپ نے بھی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہاں، میں بھی مکہ میں چند کوڑیوں کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چَرایا کرتا تھا۔) صحیح بخاری: (2143)

اسی طرح ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارت بھی کی ہے، پھر اپنی اہلیہ سیدہ خدیجہ کے سرمائے سے تجارت کرتے رہے، اور یہ سیرت میں مشہور و معروف بات ہے۔

اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سیدنا زکریا علیہ السلام بڑھئی تھے) مسلم: (2379)

اللہ تعالی نے سیدنا داود علیہ السلام کی حرفت کے بارے میں بتلایا: وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُدَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ وَكُنَّا فَاعِلِينَ وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ فَهَلْ أَنْتُمْ شَاكِرُونَ
 ترجمہ: اور داؤد کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا کہ وہ ان کے ہمراہ تسبیح کیا کریں اور یہ تسخیر ہم ہی کرنے والے تھے۔ [79] اور ہم نے داؤد کو تمہارے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھلا دی تھی تاکہ تمہیں لڑائی کی زد سے بچائے۔ پھر کیا تم شکر گزار بنتے ہو؟ [الانبیاء:79 - 80]

سیدنا خالد بن معدان ، مقدام رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اپنے ہاتھ سے کمائے ہوئے کھانے سے اچھا کھانا کبھی کسی نے نہیں کھایا، یقیناً اللہ کے نبی داود علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھایا کرتے تھے۔) بخاری: (1966)

دیکھیں کہ سیدنا داود علیہ السلام نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی تھے، اللہ تعالی نے انہیں بہت بڑی بادشاہت سے نوازا تھا، لیکن اس کے باوجود اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے، چنانچہ آپ لوہے کی زرہیں بنا کر انہیں فروخت کرتے تھے۔

اسلام نے تلاش معاش کے لیے دھرتی پر دوڑ دھوپ کرنے کی تاکید کی ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ذوالمجاز اور عکاظ دونوں ہی دور جاہلیت کے بڑے تجارتی مرکز ہوا کرتے تھے، چنانچہ جب اسلام آیا تو لوگوں نے ایسے تجارتی مراکز میں جا کر تلاش معاش سے گریز کیا تو یہ آیات نازل ہوئیں: لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِنْ رَبِّكُمْ ترجمہ: تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔ یعنی حج کے موسم میں تجارتی سرگرمیاں کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ صحیح بخاری: (1681)

فقہائے کرام اور محدثین نے اس بات کو بڑی صراحت سے بیان کیا ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ صحیح بخاری کی کتاب البیوع میں باب قائم کرتے ہیں کہ: "باب ہے تجارت کے لیے باہر نکلنے کے بارے میں، اور فرمانِ باری تعالی کے بارے میں: فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ترجمہ: پس تم زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔[الجمعہ: 10] پھر اس کے بعد ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ذکر کیا، جس میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے بارے میں کہتے ہیں: "مجھے بازاروں میں خرید و فروخت نے غافل کر دیا۔" ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر تجارت میں مصروف رہے۔" اس حدیث کو امام بخاری: (1956) اور مسلم : (2153) نے روایت کیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن منیر حاشیہ میں لکھتے ہیں: یہاں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد تجارت کے لیے آنے اور جانے کی اجازت ہے، چاہے تجارت کے لیے دور ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ بخلاف ایسے شخص کے جو بازار میں لین دین کرنے سے ناک بھوں چڑھائے اور بازار نہ جائے۔" ختم شد
"فتح الباری" (4/349)

اسی طرح امام بخاری نے باب قائم کیا ہے کہ: "باب ہے سمندر میں تجارت کرنے کے بارے میں" اسی طرح ایک باب یہ قائم کیا: "زرگر اور سناروں کے بارے میں باب"، ایک باب میں کہا: "ڈھلائی کرنے والے اور لوہار کے بارے میں باب" ایسے ہیں درزی، جولاہے، اور بڑھئی کے بارے میں بھی الگ الگ باب قائم کیے ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ابواب کو قائم کر کے ان کے تحت احادیث ذکر کیں اور دلیل سے ثابت کیا کہ یہ کام کرنا شرعی طور پر جائز ہیں، انہیں بطور پیشہ اور حرفت اپنایا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ اسلام روزی روٹی کمانے اور کام کرنے کی ترغیب نہیں دیتا تو یہ گمان بالکل صحیح نہیں ہے۔

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بڑھئی، لوہار، اور چرواہا وغیرہ جیسے پیشے کم درجوں کے پیشے ہیں تو یہ بھی صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اس بات کے غلط ہونے کے لیے یہی بات کافی ہے کہ یہ تینوں پیشے اللہ تعالی کی سب سے بہترین مخلوق یعنی انبیائے کرام نے اپنائے ہیں۔

دوم:

اسلام اس بات سے نہیں روکتا کہ انسان کسی بھی اچھے عہدے پر ہو، یا اس کی ملازمت اچھی ہو، بلکہ اسلام تو اس کی ترغیب دیتا ہے کہ انسان کو بہتر سے بہترین عہدے اور ملازمت پر ہونا چاہیے ، اس سے بڑھ کر اسلام ترغیب دیتا ہے کہ انسان بڑے سے بڑا عہدہ تلاش کرے اور اس کے لیے خوب جد و جہد بھی کرے، لیکن شرط یہ ہے کہ عہدے کی تلاش کی وجہ سے دینداری پر کوئی منفی اثر نہیں پڑنا چاہیے، کہ انسان استقامت پر نہ رہے، اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (طاقتور مومن اللہ تعالی کے ہاں کمزور مومن کے مقابلے میں زیادہ محبوب اور بہتر ہے۔ اگرچہ خیر سب میں ہے۔) صحیح مسلم: (2664) حدیث مبارکہ میں خیر کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے جس میں دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کی خیر شامل ہے۔

البتہ اسلام میں کچھ پیشوں کو اپنانے کی کراہت موجود ہے، چنانچہ اسلام نے ان سے بچنے کا حکم دیا ہے جیسے کہ ابن محیصہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے حجام [سینگی لگانے والے] کی اجرت کے بارے میں اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں منع کر دیا، انہوں نے بار بار پھر پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس کام کی اجرت سے اپنے پانی پلانے والے اونٹ کو چارا ڈال دو اور اپنے غلام کو کھلا دو۔)اس حدیث کو ابو داود: (3422) اور ترمذی : (1277) نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا اس مسئلے میں اختلاف ہے ؛ جمہور اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ حجام کی اجرت حلال ہے۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پیشہ ایسا ہے کہ جس میں گھٹیا پن پایا جاتا ہے، [سینگی لگاتے ہوئے قدیم طریقے کے مطابق خون کو منہ سے چوسا جاتا تھا، جس سے کسی کا خون منہ میں آتا تھا۔ مترجم] لیکن یہ حرام نہیں ہے؛ اس لیے انہوں نے ممانعت کو کراہت تنزیہی پر محمول کیا ہے۔ " ختم شد
"فتح الباری" (4/459)

آپ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے آزاد شخص کے لیے سینگی لگانے کے عمل کو تنزیہاً اچھا نہیں سمجھا؛ کیونکہ اس میں گھٹیا پن پایا جاتا ہے، جبکہ اسی کام کی اجرت غلام کو کھلانے کا حکم اس کے حلال ہونے کی دلیل ہے؛ لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے حجام کی اجرت کھانے کی ممانعت کو کراہت پر محمول کرنا لازم ہے، اسے حرام نہیں کہہ سکتے۔" ختم شد
"المغنی" (6/133)

مذکورہ بالا تفصیل سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کچھ ایسے پیشے اور ملازمتیں ہیں جن کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں انہیں "گھٹیا "کہہ سکیں، مثلاً: سینگی لگانا، کوڑا جمع کرنا، اور جمعداری کا کام وغیرہ ۔

تاہم یہاں کچھ باتوں پر تنبیہ کرنا چاہیں گے:

1-اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انہیں بطور پیشہ اپنانا حرام ہے، اس کی تفصیلات پہلے گزر چکی ہیں۔

2-کچھ پیشے ایسے ہوتے ہیں جو معاشرے کے کچھ افراد کے لیے مناسب ہوتے ہیں؛ کیونکہ وہ ان کاموں کے علاوہ کوئی کام کر بھی نہیں سکتا، لہذا اگر یہ افراد ایسے کم درجے کے پیشے اپنا لیں تو ان کے لیے بے روز گاری اور لوگوں سے زکاۃ خیرات وصول کرنے سے بہتر ہے۔

3-اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مسلم سماج کو ان پیشوں کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ پیشے معاشرے کی ضرورت بھی ہیں؛ کیونکہ اگر چند دن کے لیے بھی کوڑا کرکٹ جمع نہ کیا جائے تو پورے سماج کے لیے زندگی اجیرن بن جائے گی، جس کا واضح مطلب یہ ہو گا کہ وبائی امراض پھیلنے لگے گیں، اسی لیے اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ ان پیشوں میں کام کرنے والے افراد کے لیے ضروری ہے کہ انہیں پر کشش بنانے کے لیے اقدامات کرے تا کہ لوگ ان پیشوں کو اپنانے سے گریزاں نہ ہوں۔

4-ان پیشوں کے ساتھ منسلک افراد کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے کہ اگر کسی کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع کسی بھی وجہ سے نہیں مل سکا، یہ کوئی عقلی طور پر کمزور ہے، یا کسی کے حالات نے اسے ان پیشوں کو اپنانے پر مجبور کر دیا تو بلا شبہ یہ لوگ ان سے بہتر ہیں جو لوگوں سے مانگتے پھرتے ہیں، اور اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں۔

سوم:
اسلام دینی یا دنیاوی عروج حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالی کی تقسیم پر عدم رضا مندی کا اظہار ہے؛ کیونکہ دینی یا دنیاوی عروج و ترقی حاصل کرنے کے لیے اسباب اختیار کرنے ہوں گے، لہذا اللہ تعالی نے ترقی و عروج کے لیے جن اسباب کو مقرر فرمایا ہے ان اسباب کو اختیار کرنے سے عام طور پر اہداف اور مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں۔

جبکہ انسان اسی دینی یا دنیاوی ترقی کے حصول کے لیے ناجائز ذرائع استعمال کرے مثلاً: جعل سازی، دھوکا دہی، جھوٹ، یا رشوت وغیرہ کی شکل میں اللہ تعالی کی نافرمانی کرے ، اور انسان کا مقصد یہ ہو کہ کسی بھی طرح سے ظاہری چکا چوند رکھنے والے دنیاوی مفادات حاصل کرے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے ، اور پھر اس دنیاوی فائدے کو اللہ تعالی کی اطاعت میں صرف نہ کرے تو یہ شخص اللہ تعالی کی تقسیم پر راضی نہیں ہے ، یہی وہ شخص ہے جو غلطی پر ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انسان کی مال اور جاہ کی حرص کے حوالے سے ایک بہترین مثال پیش کی ہے جو کہ کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بکریوں میں چھوڑے گئے دو بھوکے بھیڑیے اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنی انسان کی دولت اور جاہ کی حرص اس کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (2376)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "سنن ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حرص، دنیاوی زندگی کی چاہت، مال و سلطان کی شکل میں دنیا کی خواہشات انسان کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہیں، جیسے کہ ترمذی میں سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بکریوں میں چھوڑے گئے دو بھوکے بھیڑیے اتنی تباہی نہیں مچاتے جتنی انسان کی دولت اور جاہ کی حرص اس کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔) امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔" ختم شد

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مال اور جاہ یعنی چودھراہٹ کی حرص کی مذمت فرمائی اور بتلایا کہ یہ انسان کے دین کو بھوکے بھیڑیوں کے بکریوں کے ریوڑ کو تباہ کرنے سے زیادہ یا اس کے برابر نقصان پہنچاتے ہیں۔
"مجموع الفتاوى" (20/142)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دولت وہی قابل مذمت ہے جسے غیر شرعی طریقوں سے حاصل کیا گیا ہو ، جسے کما حقہ خرچ نہ کیا جائے، جو دولت انسان کو اپنا غلام بنا لے، انسان کے دل پر دولت کا قبضہ ہو جائے، اور اسے اللہ اور آخرت سے غافل کر دے؛ تو ایسی دولت میں سے وہی قابل مذمت ہو گی جس کے ذریعے انسان غلط مقاصد حاصل کرے، یا غلط مقاصد حاصل تو نہ کرے لیکن اچھے مقاصد سے غافل ہو جائے لہذا قابل مذمت دولت کو غلط مقاصد کا ذریعہ بنانے والا شخص ہے نہ کہ دولت ، اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (درہم و دینار ، اور کپڑے لتے کا غلام بننے والا شخص تباہ و برباد ہو گیا۔) صحیح بخاری: (2730) تو اس حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف مادی چیزوں کی غلامی اختیار کرنے والے کی مذمت فرمائی ہے، درہم و دینار کی نہیں۔۔۔" ختم شد
"عدة الصابرين" (ص221 ، 222)

دنیا سے بے رغبتی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان تلاش معاش کے لیے کچھ نہ کرے، اور بڑے عہدوں پر براجمان نہ ہو۔

آخری بات: بڑے عہدوں اور مناصب کی تلاش اور جستجو صرف اور صرف اسی شخص کے لیے جائز ہے جو ان کا حقدار ہو اور اپنی ذمہ داریوں کو اچھے انداز سے نبھائے، چنانچہ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے ان مناصب کو حاصل کرے ، یا حاصل کرنے کے بعد اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کما حقہ نہ کرے، بلکہ اس منصب کو لوگوں پر ظلم کرنے اور مقہور بنانے کے لیے استعمال کرے ، ہمیشہ اپنے آپ کو لوگوں پر برتر سمجھے ، یا اپنے منصب کے ذریعے مال جمع کرے؛ چاہے حرام ذرائع سے کیوں نہ ہو، تو پھر ایسی صورت میں منصب اور عہدہ انسان کے لیے قیامت کے دن وبال ہو گا۔

اسی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم امارت کی لالچ کرو گے اور یہی امارت تمہارے لیے قیامت کے دن ندامت کا باعث ہو گی۔) بخاری: (7148)

اسی طرح صحیح مسلم: (1825) میں سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: "اللہ کے رسول! آپ مجھے کہیں پر اپنا گورنر مقرر کر دیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ مارا، پھر فرمایا: (ابو ذر! آپ اس کے لیے موزوں نہیں ہیں، یہ بہت بڑی امانت ہے، اور یہ عہدے قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا باعث ہوں گے، سوائے ان لوگوں کے جو ان عہدوں کو صحیح طریقے سے حاصل کریں اور پھر اس کی تمام تر ذمہ داری حسن و خوبی کے ساتھ نبھائیں۔)"

علامہ نووی رحمہ اللہ "شرح صحیح مسلم" میں کہتے ہیں:

"یہ حدیث مبارکہ بڑے سرکاری عہدوں سے بچنے کے لیے بہت ہی عظیم اصول پر مشتمل ہے، خصوصاً ایسے شخص کے لیے جس میں متعلقہ عہدے کی ذمہ داری نبھانے کی صلاحیت نہ پائی جائے۔ جبکہ حدیث مبارکہ میں مذکور رسوائی اور ندامت ایسے ہی شخص کے لیے ہے جو اس ذمہ داری کا اہل نہ ہو، یا بذات خود اہل تو تھا لیکن اس نے ذمہ داری سنبھال کر عدل نہیں کیا، تو اللہ تعالی اسے قیامت کے دن سب کے سامنے رسوا کرے گا، جس پر اسے اپنی کوتاہی اور سستی پر ندامت ہو گی، لیکن جو شخص اس ذمہ داری کا اہل تھا، اور ذمہ داری سنبھالنے کے بعد عدل بھی کیا تو اس کے لیے بہت عظیم فضیلت بھی ہے، اس حوالے سے متعدد صحیح احادیث ہیں، مثلاً: وہ حدیث جس میں سات افراد کو اللہ تعالی سایہ عطا فرمائے گا۔۔۔، اور اس کے علاوہ بھی دیگر احادیث ہیں۔ اس مفہوم پر مسلمانوں کا اجماع ہے، لیکن چونکہ یہ معاملہ کافی حساس اور خطرناک ہے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عہدے لینے سے خبردار کیا، اسی لیے علمائے کرام بھی عہدے لینے سے خبردار کرتے آئے ہیں، چنانچہ سلف صالحین میں سے متعدد لوگوں نے عہدے لینے سے انکار کر دیا، اور انکار کرنے پر انہیں تکلیفیں دی گئیں جس پر انہوں نے صبر بھی کیا۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب