الحمد للہ.
افضل تو يہى ہے كہ ميت كے پڑوسى اور اس كے رشتہ دار اپنے گھروں ميں كھانا پكا كر ميت كے اہل و عيال كو ہديہ كريں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت يہى ہے.
جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جنگ موتہ ميں اپنے چچا زاد بھائى جعفر بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كى شھادت كى خبر ملى تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں كو جعفر رضى اللہ تعالى عنہ كے گھروالوں كے ليے كھانا تيار كرنے كا حكم ديا اور فرمايا:
" كيونكہ ان كے پاس ايسى خبر آئى ہے جس نے انہيں مشغول كر ديا ہے"
اور ميت كے گھر والوں كا ميت كى بنا پر خود لوگوں كے ليے كھانا تيار كرنا جائز نہيں، يہ جاہليت كا عمل ہے، چاہے يہ كھانا فوتگى والے دن ہو يا دوسرے يا چوتھے يا دسويں يا چاليسويں دن يا سال كے بعد ہو، يہ سب كچھ جائز نہيں اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ايك صحابى جرير بن عبد اللہ البجلى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم ميت دفن كرنے كے بعد ميت كے اہل و عيال كے پاس جمع ہونے اور كھانا تيار كرنے كو نوحہ ميں شمار كرتے تھے"
ليكن اگر تعزيت كے وقت ميں ميت كے اہل و عيال كے پاس كچھ مہمان آئيں تو ان كى مہمان نوازى كے ليے كھانا تيار كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسى طرح ميت كے اہل و عيال كے ليے اس ميں بھى كوئى حرج نہيں كہ انہيں كردہ كھانا كھانے كے ليے پڑوسيوں اور رشتہ داروں ميں سے جسے چاہے دعوت ديں.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.