الحمد للہ.
اول:
جانور کو ذبح کرنے سے پہلے بجلی کا جھٹکا دینا بسا اوقات جانور کی موت کا باعث ہوتاہے، اور عام طور پر اگر بجلی کا جھٹکا ہلکا یہ درمیانی ہو تو جانور صرف بیہوش ہوتا ہے۔
چنانچہ اگر بجلی کے جھٹکے سے جانور مر گیا تو یہ مردار ہے اسے تمام فقہائے کرام کے ہاں کھانا جائز نہیں ہے، اور اگر بجلی کے جھٹکے سے نہ مرے بلکہ فوری بعد چھری سے ذبح کر دیا جائے تو ایسی صورت میں اسے کھانا حلال ہے۔
چنانچہ اس بارے میں ڈاکٹر محمد اشقر حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر
بجلی کی جھٹکے سے جانور مر جائے تو یہ چوٹ لگ کر مردار ہونے والے جانوروں میں شامل
ہوگا، اور اگر مرنے کی بجائے صرف بیہوش ہو اور مرنے سے پہلے پہلے شرعی طریقے سے
ذبح کر دیا جائے تو حلال ہوگا، اور اگر ذبح کیے بغیر ہی بجلی کے جھٹکوں کے بعد اس
کی کھال وغیرہ اتارنی شروع کر دی جائے تو تب بھی یہ حرام ہوگا" انتہی
ماخوذ از: "مجلہ اسلامی فقہ اکیڈمی" (شمارہ نمبر: 10، مضمون نگار: ڈاکٹر محمد اشقر
بعنوان: " الذبائح والطرق الشرعية في إنجاز الذكاة ")
یہاں یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ بجلی کا جھٹکا کتنی شدت کا ہو تو جانور قتل ہو جاتا ہے، اور کتنا کم ہو تو جانور بیہوش ہوتا ہے؟
اس کا جواب اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) کے تحت اسلامی فقہی اکیڈمی کی قرارداد نمبر: (95) میں موجود ہے، جو کہ ان امور کے ماہرین کی پیش کی جانے والی رپوٹوں کو بنیاد بنا کر مرتب کی گئی ہے، اس میں ہے کہ:
"بیہوش کرنے کے بعد ذبح کیے جانے والے جانور شرعی طور پر حلال ہیں بشرطیکہ ان میں تمام فنی شرائط پائی جائیں اور ذبح کرنے سے پہلے یہ اطمینان کر لیا جائے کہ جانور کی موت واقع نہ ہوئی ہو، موجودہ حالات میں ماہرین نے درج ذیل امور کو لازمی قرار دیا ہے:
1- برقی رو کے منفی اور مثبت راڈ کو دائیں اور بائیں کنپٹی پر لگایا جائے یا پیشانی اور سر کی پچھلی جانب یعنی گدی پر لگایا جائے۔
2- وولٹیج 100 سے 400 وولٹ کے درمیان ہو۔
3- برقی رو کی شدت (0.75 سے 1 ) ایمپیئر تک بکری کیلئے ہو، اور گائے وغیرہ کیلئے (2 سے 2.5) ایمپیئر تک ہو۔
4- بجلی کا جھٹکا 3 سے 6 سیکنڈ تک دیا جائے۔
ج- جس جانور کو ذبح کرنا مقصود ہے اسے (Captive Bolt Pistol) [ایک پستول جس میں سے ایک لوہے کا نوک دار میخ نکل کر جانور کے دماغ میں لگتا ہے اور بیہوش ہو جاتا ہے، چنانچہ 3 سے 4 منٹ تک جانور ذبح نہ کیا جائے تو وہ مر جائے گا] کے ذریعے یا دماغ پر کلہاڑی اور ہتھوڑی مار کر ، یا گیس کے ذریعے بیہوش کرنا جائز نہیں ہے، جیسے کہ عام طور پر انگریز انہی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے جانور بیہوش کرتے ہیں۔
ح- مرغیوں کو بجلی کے جھٹکوں سے بیہوش کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ عینی مشاہدے میں آیا ہے کہ اس طرح کافی تعداد میں مرغیاں ذبح ہونے سے پہلے ہی مر جاتی ہیں۔
خ- کاربن ڈائی آکسائید کو ہوا یا آکسیجن کے ساتھ ملا کر ، یا چپٹی گولی والی پستول [non-penetrating bolt gun] استعمال کر کے جانور بیہوش کرنا اور پھر اسے ذبح کرنا ایسے جانور کا گوشت حلال ہے، بشرطیکہ اس پستول کو بھی ایسے انداز سے استعمال کیا جائے جس سے جانور کی موت ذبح کرنے سے پہلے واقع نہ ہو" انتہی
دائمی فتوی کمیٹی سے فتوی پوچھا گیا:
"ایسے جانوروں کا گوشت کھانے کا کیا حکم ہے جنہیں ایک اسلامی ملک میں بجلی کے
جھٹکے کی مدد سے ذبح کیا جاتا ہے، یہ بات واضح رہے کہ بجلی کا جھٹکا لگنے کے بعد
جانور بیہوش ہو کر گر جاتا ہے، اور پھر فوری طور پر اسے ڈیوٹی پر مامور شخص ذبح کر
دیتا ہے"
تو کمیٹی نے جواب دیا:
"اگر معاملہ ایسے ہی کہ جیسے ذکر کیا گیا ہے کہ بجلی کا جھٹکا لگنے کے فوری بعد
قصاب کی جانب سے جانور کو چھری سے ذبح کیا جاتا ہے، تو اگر قصاب جانور کے زندہ ہوتے
ہوئے اسے ذبح کر دے تو اسے کھانا جائز ہے، اور اگر مرنے کے بعد ذبح کرتا ہے تو اسے
کھانا جائز نہیں ہوگا۔
کیونکہ اس طرح مرنے والا جانور چوٹ لگ کر مرنے والے جانوروں میں
شمار ہوگا، اور ایسے جانور کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے، تاہم اگر مرنے سے
پہلے پہلے ذبح کر دیا جائے تو وہ حلال ہوگا، لیکن مرنے کے بعد اسے ذبح کرنے کا کوئی
فائدہ نہیں ہے، جانور کے زندہ ہونے کا اس طرح علم ہوگا کہ جانور ہاتھ پاؤں ہلاتا
رہے، یا خون فوارے کی شکل میں خارج ہو تو یہ جانور کے زندہ ہونے کی علامت ہے،
فرمانِ باری تعالی ہے:
(حُرِّمَتْ
عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ
اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ
وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلا مَا ذَكَّيْتُمْ)
ترجمہ: تم پر مردار، خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کیلئے مشہور کیا گیا جانور، گلا
دب کا مرنے والا، چوٹ لگ کر مرنے والا، بلندی سے گر کر مرنے والا، سینگ لگ کر مرنے
والا، اور جسے درندہ کھالے یہ سب حرام ہیں، ما سوائے اس کے جسے تم مرنے سے پہلے
خود ذبح کرلو[المائدة:3]
تو اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں ایسے جانور کو حلال قرار دیا ہے جس میں مرتے
ہوئے جانور کو مرنے سے پہلے ذبح کر دیا جائے ، دوسری صورت میں اسے کھانا حلال نہیں
ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" ( 22/455)
مزید کیلئے سوال نمبر: (83362) کا مطالعہ کریں۔
دوم:
جانور ذبح کرنے کیلئے بسم اللہ شرط ہے، جو کہ سہواً، جہلاً کسی بھی صورت میں علمائے
کرام کے صحیح ترین قول کے مطابق ساقط نہیں ہوگی۔
اس بارے میں مزید تفصیلات کیلئے سوال نمبر: (85669) کا
مطالعہ مفید ہوگا۔
مذکورہ بالا تفصیلات کے بعد: اگر آلہ ایک ایک مرغی ذبح کرتا ہے تو ہر مرغی پر بسم اللہ پڑھنا شرط ہے، چنانچہ اگر ہر مرغی پر بسم اللہ نہ پڑھی تو یہ حلال نہیں ہوگی۔
اسی طرح مرغی کو زندہ حالت میں گرم پانی میں ڈبونا بھی جائز نہیں ہے، ایسا کرنا مرغی کو عذاب دینے کے مترادف ہے، تاہم اگر کوئی مرغی بسم اللہ کے بغیر ذبح ہو گئی تو اسے گرم پانی میں ڈالا جا سکتا ہے، لیکن یہ بات یقینی بنائی جائے کہ اسے دیگر بسم اللہ پڑھ کر ذبح کی گئی مرغیوں سے الگ رکھا جائے ۔
اور اگر ذبح کرنے کا آلہ ایک وقت میں کئی مرغیاں ذبح کرتا ہے تو پھر ایک ہی بار تسمیہ کافی ہوگا۔
دائمی فتوی کمیٹی سے فتوی لیا گیا کہ:
"خود کار طریقے سے ذبح کرنے کا کیا حکم ہے؟ اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ مشینوں کے
ذریعے بیک وقت دسیوں مرغیاں ایک ہی تسمیہ کہہ کر کاٹ دی جاتی ہیں، اور اگر کوئی شخص
بہت بڑی تعداد میں مرغیاں ذبح کر رہا ہے تو کیا اس کیلئے ایک ہی بار تسمیہ کہنا
درست ہے؟ یا ہر بار اسے الگ سے تسمیہ کہنا ہوگی؟"
تو کمیٹی نے جواب دیا:
1- جدید آلات کے ذریعے ذبح کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ آلات تیز دھار والے ہونے چاہییں، اور حلق کیساتھ دیگر رگوں کو بھی کاٹ دے۔
2- اگر مشین ایک وقت میں متعدد مرغیاں ذبح کرے تو سب کیلئے ایک بار تسمیہ پڑھنا کافی ہوگا، اور یہ تسمیہ کوئی مسلمان یا اہل کتاب میں سے کوئی بھی مشین کو ذبح کی نیت سے چلاتے وقت پڑھے گا۔
3- اگر مرغی کو ذبح کرنے والا شخص اپنے ہاتھ سے مرغیاں ذبح کر رہا ہے تو ہر مرغی پر الگ سے بسم اللہ پڑھنی ہوگی۔
4-
ذبح کرنے کی جگہ سے ذبح کرنا لازمی ہے، یعنی خوراک کی نالی سمیت خون کی دونوں یا
کوئی ایک رگ لازمی کاٹی جائے۔" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (22/463)
سوم:
اگر آپ نے قرآن پکڑ کر یہ قسم کھائی تھی کہ میں ہر مرغی کو ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھوں گا، تو اس قسم کو پورا کرنا ضروری ہے، اور اگرآپ اپنی ذمہ داری پوری طرح نہیں نبھا سکتے تو آپ کم مت کریں، اور آپ نے کام چھوڑ کر درست کیا ہے۔
چہارم:
اگر ذبح کرنے والا شخص یہودی یا عیسائی ہو تو اس کا ذبیحہ اسی طرح
حلال ہے جیسے مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ
ترجمہ: اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے۔[المائدة : 5]
چنانچہ اگر ذبح کرنے والا شخص اہل کتاب میں سے نہیں ہے تو اس کا ذبیحہ حرام ، پلید اور مردار ہے، اسے کھانا جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم.