جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اگر معلوم نہ ہو كہ جانور ذبح كيا گيا يا بےہوش كرنے سے مر گيا ہے

83362

تاریخ اشاعت : 27-10-2008

مشاہدات : 6671

سوال

جرمن لوگ جانور ذبح كرتے ہيں تو پہلے اسے بےہوش كرتے ہيں، اور وہ اہل كتاب ميں شمار ہوتے ہيں ان كے اس طريقہ سے ذبح كردہ گوشت كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اصل يہى ہے كہ اہل كتاب كا ذبح كيا ہوا جانور حلال ہے چاہے وہ يہودى ہو يا عيسائى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

سب پاكيزہ اشياء آج تمہارے ليے حلال كى گئيں اور اہل كتاب كا كھانا ( ذبيحہ ) تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہارا كھانا ( ذبيحہ ) ان كے ليے حلال ہے المآئدۃ ( 5 ).

دوم:

مسلمان اور اہل كتاب كى جانب سے ذبح كردہ جانور كے حلال ہونے ميں شرط يہ ہے كہ ذبح اپنى جگہ ميں ہو، اس كى دونوں رگيں كاٹى جائيں، اور اگر اس كے ساتھ حلق جس سے سانس جارى ہوتا ہے، اور كھانا اور پانى جاتا ہے وہ رگ بھى كاٹى جائے تو اكمل ذبح ہوگا.

ليكن جانور كو ذبح كرنے سے قبل بےہوش كرنے كے متعلق تفصيل پائى جاتى ہے:

اگر تو جانور ميں زندگى ہو اور اسے ذبح كر ديا جائے تو اسے كھانا جائز ہے، مثلا اسے ہلكا سا بےہوش كيا جائے اور فورا ذبح كر ليا جائے.

ليكن اگر جانور كى موت ہو جانے كے بعد اسے ذبح كيا جائے تو اسے كھانا جائز نہيں، بلكہ يہ ضرب سے مرے ہوئے جانور ( الموقوذۃ ) ميں شامل ہوتا ہے، اور الموقوذۃ اس جانور كو كہتے ہيں جسے اونچى جگہ سے نيچے پھينك كر يا پتھر يا لاٹھى كى ضرب لگا كر بغير ذبح كيے ہى مارا جائے، جيسا كہ حسن، قتادہ اور ضحاك اور سدى رحمہم اللہ سے روايت كيا جاتا ہے.

ديكھيں: تفسير القرطبى ( 6 / 46 ).

اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

تم پر حرام كيا گيا ہے مردار اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو، ليكن اسے تم ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں المآئدۃ ( 3 ).

تو يہاں اللہ كا فرمان: مگر جسے تم ذبح كر ڈالو: يہ اس سے جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو سے مستثنى كيا گيا ہے كہ اس ميں زندگى ہو اور اسے ذبح كر ليا جائے تو وہ حلال ہے.

يہاں زندہ سے مراد مستقر زندگى ہے جو اس جانور كو ذبح كرتے وقت جانور كے حركت كرنے سے پہچانى جاتى ہے اور اس كا خون تيزى سے شرارے مار كر نكلتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتےہيں:

" اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو، يا جو جانور بيمارى سے مرا ہو تو وہ حرام ہے، ليكن جو مرنے سے پہلے ذبح كر ليا جائے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

مگر جسے تم ذبح كر لو .

كعب بن مالك بيان كرتے ہيں كہ ان كى ايك لونڈى سلع پہاڑى پر بكرياں چرا رہى تھى تو اس نے اپنى بكريوں ميں ايك كو مرنے كے قريب ديكھا تو ايك پتھر كو توڑ كر اس بكرى كو ذبح كر ديا تو انہوں نے اپنے اہل و عيال كو كہا تم اسے مت كھاؤ حتى كہ ميں جا كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كے متعلق دريافت نہ كرلوں، يا پھر كسى دوسرے كو دريافت كرنے كے ليے بھيجوں، تو وہ خود آئے يا كسى كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بھيجا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اسے كھا لو "

اور اگر اس ميں زندگى صرف اتنى بچى ہو جتنى ذبح كردہ جانور ميں حركت ہوتى ہے تو وہ ذبح كرنے سے مباح نہيں ہو گا.

اور اگر اسے كسى نے پايا اور اس ميں زندگى مستقر ہو يعنى اس كا ذبح كرنا ممكن ہو تو وہ آيت اور حديث كے عموم كى بنا پر حلال ہو گا، چاہے اس جانور كے متعلق يہ علم ہو جائے كہ وہ اس حالت ميں زندہ نہيں رہ سكتا يا پھر زندہ رہے گا، يا علم نہ ہو آيت اور حديث كا عموم اسى پر دلالت كرتا ہے، اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس لونڈى سے كوئى سوال نہيں كيا اور نہ ہى تفصيل پوچھى.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے ايك بكرى جس كو بھيڑيے نے چير پھاڑ كھايا تو بكرى كا ايك عضو زمين پر گر پڑا، اور اسے پتھر كے ساتھ ذبح كر ليا گيا تو ابن عباس اس كے متعلق كہنے لگے:

جو عضو عليحدہ ہو كر زمين پر گر پڑا ہے اسے پھينك دو اور باقى سارا گوشت كھا لو.

اور امام احمد نے ايسے جانور جسے ايك چوپائے نے زخمى كر ديا تھا حتى كہ اس ميں موت كے آثار نظر آنے لگے ليكن اس ميں روح باقى تھى اور اسے ذبح كر ليا گيا تو اس كے متعلق فرمانے لگے:

اگر اسنے اپنى دم ہلائى اور آنكھيں جھپكيں اور خون بہہ نكلا تو مجھے اميد ہے ان شاء اللہ اس كے كھانے ميں كوئىحرج نہيں.

اسے امام احمد كى سند كے ساتھ عقيل بن عمير اور طاؤوس سے بيان كيا جاتا ہے انہوں نے حركت كرنے كا تو كہا ہے، ليكن خون بہنے كا نہيں كہا، اور يہ ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كے مسلك كے مطابق ہے.

اور اسماعيل بن سعيد رحمہ اللہ كہتے ہيں: ميں نے امام احمد سے ايسى بيمار بكرى كے متعلق سوال كيا جس كى موت كا خدشہ ہو، اور لوگ اسے ذبح كر ليں، صرف انہيں اس كى آنكھ جھپكنے كا ہى علم ہو سكا، اس سے زيادہ نہيں، يا پھر اس كى اگلى يا پچھلى ٹانگ يا دم ميں كمزور سى حركت ہوئى اور خون جارى ہو گيا ؟

تو امام احمد رحمہ اللہ كا كہنا تھا: اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى.

ديكھيں: المغنى ( 9 / 322 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

مسلمان ملك ميں اليكٹرانك آلات كے ذريعہ ذبح كيا جانے والا گوشت كھانے كا حكم كيا ہے، يہ علم ميں رہے كہ اليكٹرانك آلات جانور پر كنٹرول كر ليتے ہيں حتى كہ جانور گر جاتا ہے، اور پھر اس كے زمين كے گرنے كے فورا بعد قصائى اسے ذبح كر ديتا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے كہ اليكٹرانك آلات كے جانور پر كنٹرول كرنے اور اس كے زمين پر گرنے كے فورا بعد قصائى اسے اس حالت ميں ذبح كرتا ہے كہ جانور ميں زندگى موجود تھى تو اس كا كھانا جائز ہے.

ليكن اگر اس كى موت كے بعد اسے ذبح كيا گيا ہو تو اس كا گوشت كھانا جائز نہيں، كيونكہ يہ جانور ضرب سے مرے ہوئے ( الموقوذۃ ) جانور كے حكم ميں شامل ہوتا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے حرام قرار ديا ہے، ليكن اگر اسے ذبح كر ليا جائے تو حلال ہو گا، اور ذبح كرنے كى بھى تاثير اس وقت ہو گى جب جانور كى اگلى يا پچھلى ٹانگ وغيرہ حركت كرنے يا خون تيزى سے خون جارى ہونے سے زندگى كا ثبوت مل جائے جو ذبح كرنے تك رہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم پر حرام كيا گيا ہے مردار اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو، ليكن اسے تم ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں المآئدۃ ( 3 ).

تو اللہ سبحانہ و تعالى نے چوپايوں ميں سے خطرناك زخمى ہونے والوں كو اس شرط پر مباح قرار ديا ہے كہ اسے ذبح كر ليا جائے، وگرنہ اس كا كھانا حلال نہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 455 ).

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:

" اول:

اگر تو جانور كے سر ميں ضرب لگا كر يا پھر اسے كرنٹ لگايا جائے تو ذبح كرنے سے قبل ہى وہ جانور مر جائے تو يہ موقوذۃ يعنى ضرب سے مرنے والے جانور ميں شمار ہوتا ہے، چاہے بعد ميں اس كى گردن كاٹ بھى دى جائے يا اسے نحر بھى كيا جائے ( نحر يہ ہے كہ اس كے حلق كے نيچے چھرى مارى جائے ) تو اسے كھايا نہيں جا سكتا، اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے درج ذيل فرمان ميں حرام كيا ہے:

تم پر حرام كيا گيا ہے مردار اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو، ليكن اسے تم ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں المآئدۃ ( 3 ).

علماء اسلام كا اجماع اور اتفاق ہے كہ اس طرح كا ذبح حرام ہے، اور اگر مذكورہ طريقہ سے بےہوش كرنے كے بعد اس ميں جان ہو اور اسے ذبح يا نحر كر ليا جائے تو اسے كھانا جائز ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس آيت ميں فرمايا ہے:

جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو اور جو كسى كے سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو

تو اس كے بعد فرمايا:

مگر جسے تم ذبح كر لو .

اللہ سبحانہ و تعالى نے ان حرام كردہ سے اسے استثنى كيا ہے جسے زندہ حالت ميں پا ليا جائے اور اسے زندہ حالت ميں ہى ذبح كر ليا گيا ہو، تو اسے ذبح كرنے كى تاثير كى بنا پر كھايا جائيگا، ليكن اس كے بخلاف جو بےہوش كرنے كى بنا پر ذبح يا نحر كرنے سے قبل ہى مر جائے، كيونكہ اس كے حلال ہونے ميں ذبح كى كوئى تاثير نہيں.

اس سے يہ علم ہوا كہ قرآن مجيد نے ان جانوروں كو حرام كيا ہے جو بےہوش كرنے كى بنا پر ذبح كرنے سے قبل ہى مر جائيں، كيونكہ بےہوش كردہ جانور ضرب سے مرنے والا جانور ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے سورۃ المآئدۃ كى آيت ميں اس كو حرام قرار ديا ہے، ليكن اگر اسے زندہ پا ليا جائے اور زندہ ہونے كى صورت ميں ہى اسے ذبح يا نحر كر ليا جائے تو وہ حلال ہے.

دوم:

حيوان كو ضرب يا كرنٹ وغيرہ لگا كر بےہوش كرنا حرام ہے، كيونكہ اس ميں جانور كو اذيت اور عذاب ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جانور كو اذيت اورعذاب دينے سے منع فرمايا ہے، بلكہ جانور كے ساتھ رحم اور نرمى و شفقت كرنے كا حكم ديا ہے.

بلكہ خاص كر ذبح كرنے كے متعلق تو خاص كر اہتمام كرنے كا حكم ديا، امام مسلم رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس ميں روح ہو اسے نشانہ بازى كا ہدف مت بناؤ "

اور امام مسلم رحمہ نے ہى جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كسى بھى جانور كو باندھ اور نشانہ بنا كر قتل كرنے سے منع فرمايا "

اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ہى شداد بن اوس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر چيز پراحسان كرنا فرض كيا ہے، تو جب تم قتل كرو تو اس ميں بہترى اختيار كرو، اور جب ذبح كرو تو بہتر طريقہ سے كرو، اور تمہيں اپنى چھرى تيز كر لينى چاہيے اور اپنے ذبح كردہ جانور كو راحت پہنچائے "

اور اگر بے ہوش كيے بغير جانور ذبح كرنا ميسر نہ ہو تو پھر اس ميں شرط يہ ہے كہ بےہوش ہونے كے بعد وہ مرے نہيں بلكہ اس ميں زندگى ہونى چاہيے اور زندہ ہونے كى صورت ميں اسے ذبح يا نحر كيا جائے تو ضرورت كى بنا پر بےہوش كرنا جائز ہے اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 456 - 457 ).

سوم:

اگر تو معاملہ ايسا ہى ہے جيسا آپ بيان كر رہے ہيں كہ وہ ذبح كرنےسے قبل جانور كو بےہوش كرتے ہيں، تو اس ميں تين احتمالات ہيں:

پہلا احتمال:

جس جانور كے متعلق ہميں علم ہو جائے كہ وہ جانور بےہوش كيا گيا اور اس كى موت سے قبل اسے ذبح كر ليا گيا، تو اسے كھانا حلال ہے.

دوسرا احتمال:

جس كے متعلق ہميں علم ہو كہ وہ بےہوش ہونے سے مر گيا ہے، تو اس جانور كا گوشت كھانا حلال نہيں.

تيسرا احتمال:

جب اس كى حالت كا علم ہى نہ ہو اور اس سے جاہل رہا جائے، تو تو پھر اس حالت ميں اغلب كو ليا جائيگا، اگر تو ملك ميں يہ اكثر اور غالب ہے كہ جانور كو بےہوش كرنے سے موت واقع ہونے كے بعد ذبح كرتے ہيں، تو جس كى حالت سے لاعلم ہو اسے كھانا حلال نہيں.

اور اگر غالب اور اكثر يہ ہو كہ اس ميں زندگى ہوتے ہوئے اسے ذبح كيا جاتا ہے، تو اسے كھانا حلال ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب