الحمد للہ.
اس مسئلہ ميں سلف رحمہ اللہ كا اختلاف چلا آ رہا ہے، ان ميں سے بعض علماء نے تو اس كى رخصت دى ہے، اور بعض نے اس سے منع كيا ہے، اور بعض اہل علم نے اس ميں تفصيل بيان كرتے ہوئے كہا ہے جس شخص كا اكثر مال حرام كى كمائى ہو تو اس سے اجتناب كرنا واجب يا مستحب ہے، اور جس كا اكثر مال حلال كمائى سے ہو تو اس كے ساتھ لين دين كرنا اور اس كے مال ميں سے كھا لينا جائز ہے.
اس مسئلہ كى تفصيل ابن رجب رحمہ اللہ كى كتاب " جامع العلوم والحكم " كى چھٹى حديث كى شرح ميں ديكھيں.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا جائز ہے ؟
تو شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ: جس كى كمائى حرام ہو تو وہ اس صرف كمائى كرنے والے پر ہى حرام ہے، ليكن جو شخص اس مال كو مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كرے اس كے ليے جائز ہے؛ اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى خود بھى يہوديوں سے ہديہ قبول كيا تھا؛ خيبر ميں ايك يہودى عورت نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ايك بكرى كا تحفہ ديا تھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہوديوں كے ساتھ لين دين بھى كيا ہے، اور جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو ان كى درع ايك يہودى كے پاس رہن ركھى ہوئى تھى، حالانكہ يہودى سودى لين دين كرتے ہيں.
جيسا كہ اللہ سبحانہ وتعالى نے ان كے متعلق خبر ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اور يہوديوں كے ظلم كى بنا پر ہم نے ان پر وہ پاكيزہ چيزيں حرام كر ديں جو ان كے ليے حلال كى گئى تھيں، اور اكثر لوگوں كو اللہ تعالى كى راہ سے روكنے كے باعث، اور ان كے سود لينے كے باعث حالانكہ انہيں اس سے منع كيا گيا تھا، اور لوگوں كا ناحق مال كھانے كے باعث، اور ان ميں جو كفار ہيں ہم نے ان كے ليے المناك قسم كا عذاب تيار كر ركھا ہے النساء ( 161 - 162 ).
تو اس بنا پر سودى لين دين كرنے والے كا ہديہ قبول كرنا جائز ہے، اور اسى طرح اس كے ساتھ خريد و فروخت كرنا بھى جائز ہے، ليكن اگر اس كے ساتھ بائيكاٹ كرنے ميں كوئى مصلحت پيش نظر ہو تو پھر ٹھيك ہے، اس مصلحت كى بنا پر اس سے معاملات نہيں كرينگے.
ليكن جو چيز بعينہ حرام ہو وہ لينے والے اور دوسرے پر بھى حرام ہے.
تو ـ مثلا ـ اگر كوئى يہودى يا عيسائى، يا جو لوگ شراب كو ترويج دينا چاہتے ہيں شراب كا تحفہ پيش كريں تو اسے قبول كرنا جائز نہيں ہے، كيونكہ شراب بعينہ حرام چيز ہے.
اور اسى طرح اگر كوئى شخص كسى كا مال چورى كر كے اس ميں سے كسى دوسرے شخص كو ديتا ہے تو اس كے ليے وہ قبول كرنا جائز نہيں كيونكہ يہ مال بعينہ حرام ہے.
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح اللقاء الثانى ( 1 / 76 ) كچھ كمى و بيشى كے ساتھ پيش كيا گيا ہے.
واللہ اعلم .