اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بیع مرابحہ کی صورت میں قسطوں میں ادائیگی کرنا

سوال

میں ایک مالدار شخص کے پاس جاتا ہوں  کہ وہ میری شادی کے لیے بیڈ روم کا سامان ادھار پر خرید کر دے، تو یہ شخص شوروم جا کر مخصوص رقم میں پورے بیڈ روم کا سامان نقد خرید لیتا ہے، اور پھر مجھے قسطوں میں  مہنگے داموں فروخت کر دیتا ہے، یہ مالدار شخص اس انداز سے خرید و فروخت کئی لوگوں کے ساتھ کر چکا ہے، کسی بھی شخص کو جو چیز چاہیے یہ اس چیز کو خرید کر آگے قسطوں میں فروخت کر دیتا ہے، واضح رہے کہ یہ شخص کسی مخصوص تجارت کا ماہر بھی نہیں ہے، تو کیا اس طرح لین دین کرنا سود ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال میں مذکور صورت کو { بيع المرابحة للآمر بالشراء}  کہتے ہیں،  اس حوالے سے ڈاکٹر محمد عبد الحلیم عمر اپنے تحقیقی آرٹیکل بعنوان: " التفاصيل العملية لعقد المرابحة"  جو کہ اسلامی فقہ اکادمی کے مجلہ کے پانچویں شمارے میں شائع ہوئی ہے، اس میں کہتے ہیں:
"مرابحہ کی دو صورتیں ہیں فقہی مسائل میں زمانہ قدیم سے ان کا تذکرہ چلا آ رہا ہے:
پہلی صورت: اس صورت کو بنیادی یا عمومی صورت بھی کہا جا سکتا ہے، اس میں یہ ہوتا ہے کہ  کوئی بھی کسی چیز کو مخصوص قیمت میں خرید لیتا ہے، اور پھر کسی اور کو  اصل قیمت سمیت منافع کے ساتھ فروخت کر دیتا ہے۔ اس صورت میں خریدار اپنے لیے چیز خرید رہا ہے، کسی نے اس سے چیز خریدنے کا مطالبہ نہیں کیا، چنانچہ اس نے خود ہی خرید کر مرابحہ [اصل قیمت  اور اپنا منافع دونوں گاہک کو بتلا کر چیز فروخت کرنا۔ مترجم] کے طریقے سے اسے فروخت کے لیے پیش کیا۔

دوسری صورت: وہ ہے جسے جدید دور میں { بيع المرابحة للآمر بالشراء}  کہتے ہیں ، اس میں یہ ہوتا ہے کہ: ضرورت مند شخص کسی کے پاس جا کر کہتا ہے کہ فلاں معین چیز تم خرید لو،  پھر میں آپ سے وہ چیز اسی قیمت میں خریدوں گا جس میں آپ نے خریدی اور ساتھ میں مخصوص تناسب  میں آپ کو بطور منافع اضافی رقم بھی دوں گا۔ بیع کی یہ شکل اگرچہ معاصر فقہائے کرام اسے { بيع المرابحة للآمر بالشراء}  کہتے ہیں   لیکن اس طرح کا لین دین قدیم  فقہائے کرام کی کتابوں میں بھی ملتا ہے، جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب الام میں آتا ہے کہ: "ایک چیز کسی نے ایک آدمی کو دکھائی، اور کہا: یہ چیز تم خرید لو، میں تم سے یہ چیز خرید لوں گا اور تمہیں اتنا نفع بھی دوں گا، تو یہ شخص وہ چیز خرید لیتا ہے ، تو اس سے دوسرے شخص کا خریدنا جائز ہے ۔۔۔" امام شافعی رحمہ اللہ آگے چل کر مزید کہتے ہیں: "اگر کہے: میرے لیے فلاں خوبیوں والی چیز خریدو، یا کوئی بھی چیز تم اپنی مرضی سے خرید لو ، تو میں تم سے وہ خرید لوں گا اور تمہیں نفع بھی دوں گا، تو یہ دونوں صورتیں یکساں طور پر جائز ہیں۔"" ختم شد

اس لیے { بيع المرابحة للآمر بالشراء} جائز ہے، بشرطیکہ مبیع فروخت کنندہ خرید کر اپنے قبضے میں حقیقی طور پر لے اور اس کے بعد ہی خریداری کا کہنے والے کو فروخت کرے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (13/153)میں ہے کہ:
"جب کوئی کسی سے مخصوص خوبیوں والی یا معین گاڑی  خریدنے کا  مطالبہ کرے اور اسے وعدہ دے کہ جب آپ گاڑی خرید لو گے تو میں آپ سے گاڑی خریدوں گا، تو اس شخص نے گاڑی خرید لی اور اپنے قبضے میں لے لی، تو اب مطالبہ کنندہ کے لیے جائز ہے اس گاڑی کو نقد یا ادھار قسطوں کی شکل میں اس سے خرید لے، اس پر مخصوص منافع لینا بھی جائز ہے۔ یہ شکل معدوم کی بیع میں نہیں آتی؛ کیونکہ جس شخص سے خریدنے کا مطالبہ کیا گیا اس نے پہلے وہ چیز خریدی ہے اور پھر اسے اپنے قبضے میں لے کر آگے نقد یا ادھار فروخت کیا ہے۔ تاہم یہ جائز نہیں ہے کہ چیز کی خریداری سے پہلے اپنے دوست کو فروخت کر دے یا خریداری کی بعد اور قبضے میں لینے سے پہلے اسے فروخت کرے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی بھی  سامان کو اسے قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے تا آں کہ تاجر اس چیز کو اپنے گھروں میں لے جائیں۔" ختم شد

تو اس سے معلوم ہوا کہ سوال میں مذکور مالدار شخص جب طلب کنندہ کے ساتھ تاجر کے پاس جاتا ہے اور مثال کے طور پر بیڈ روم  پوری قیمت ادا کر دیتا ہے، اور طلب کنندہ تاجر کی دکان سے ہی سامان اٹھا لیتا ہے قبل ازیں کہ مالدار شخص اسے اپنے قبضے میں لے اور اس کی ضمانت میں داخل ہو تو یہ جائز نہیں ہے۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فتاوی نور علی الدرب میں کہتے ہیں:
"آج کل بہت سے لوگ  یہ کام کر رہے ہیں کہ: قرض لینے اور دینے والا شخص دونوں کسی تیسرے شخص جو کہ تاجر ہے کے پاس جاتے ہیں، اور قرض دینے والا تاجر سے مطلوبہ چیز خرید لیتا ہے، اور اس چیز کو اپنے قبضے میں لینے سے پہلے قرض دینے والا قرض لینے والے کو یا اسی تاجر کو وہ چیز فروخت کر دیتا ہے، تو یہ کسی بھی چیز کو خریداری کی جگہ پر فروخت کرنے  کی وجہ سے منع ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سامان کو دکان میں منتقل کرنے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔" ختم شد

پھر ممانعت کی ایک وجہ یہ بھی واضح ہوتی ہے کہ مالدار شخص اس صورت میں  ایسی چیز سے نفع کما رہا ہے جو اس کی ضمانت میں داخل ہی نہیں ہوئی، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (ضمانت کے بغیر کسی چیز سے نفع کمانا جائز ہی نہیں ہے۔) اس حدیث کو ترمذی (1234) نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے، نیز اس روایت کو: ابو داود: (3504) نسائی:  (4629) ، ابن ماجہ: (2188)  اور امام احمد: (6591)نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے سلسلہ صحیحہ : (1212) میں صحیح قرار دیا ہے۔

بیع مرابحہ کے جواز کے لیے مزید شرائط جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (36408 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب