اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان "جو شادی کی طاقت نہ رکھے وہ روزے لازم کرلے" میں روزوں کا کیا حکم ہے۔

135677

تاریخ اشاعت : 15-06-2014

مشاہدات : 9041

سوال

سوال: فرمانِ رسالت: (نوجوانوں! جو شادی کی طاقت رکھتا ہے، وہ شادی کر لے، اور جو طاقت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، روزے اسکی شہوت توڑ دیں گے) اس حدیث میں روزوں کا حکم ترغیب دلانے کیلئے ہے یا وجوب کیلئے ہے؟ میں اس کی وضاحت چاہتا ہوں، اللہ آپکو جزائے خیر سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

پہلی بات:

اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو زنا اور فحاشی سے بچنے کا حکم دیا، اور ان برائیوں سے بچنے ، اور حلال و جائز انداز اپنے آپکو محفوظ بنانے کیلئے اپنے بندوں کو شادی کی راہنمائی کی ۔

اور اللہ تعالی کے علم میں تھا کہ بہت سے لوگ شادی تو کرنا چاہتے ہیں لیکن ابھی شادی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے ، تو انہیں اللہ کی طرف سے کوئی راستہ بننے تک صبر ، اور پاکدامنی کا سبق دیا، چنانچہ فرمایا:

( وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ * وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ )

ترجمہ: اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دو [جو غیر شادی شدہ ہیں ] اور اپنے نیک غلاموں اور باندیوں کا بھی نکاح کر دو، اگر وہ محتاج ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے * اور جو لوگ نکاح کی طاقت نہیں رکھتے وہ عفت اور پاکدامنی کے ساتھ رہیں، تاآنکہ اللہ انھیں اپنے فضل سے غنی کردے ۔ النور/32-33

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سوال میں مذکور حدیث کے اندر شادی کی جانب رغبت دلائی ہے، جو کہ عفت کیلئے سب سے بڑا ذریعہ ہے، اگرچہ شادی کی وجہ سے امت مسلمہ میں اضافہ کے علاوہ اور بہت سے عظیم فوائد حاصل ہوتے ہیں، اسکے بعد پھر جو شخص شادی کی استطاعت نہ رکھے تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عفت و پاکدامنی دینے اور شہوت توڑنے کیلئے روزے رکھنے کی نصیحت کی۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :

"اور اس میں اشارہ ہے کہ روزے کا اصل مقصد شہوت کا توڑ ہے" انتہی

کچھ اہل علم نے اس حدیث سے ایک اور حکمت بھی استنباط کی ہے ، چنانچہ امام قاضی تقی الدین سبکی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"فرمانِ باری تعالی : كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

ترجمہ: تم پر ایسے ہی روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ" کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں، چنانچہ اسکی تفسیر میں کہا گیا ہے کہ: "تاکہ تم متقی بن جاؤ" یعنی : تم گناہوں سے بچو، کیونکہ روزہ دار اپنے نفس کو پوری قوت کیساتھ بری جگہوں اور کاموں سے روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہی مفہوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان : ([جو شادی کی طاقت نہ رکھے ]وہ روزے لازم کرلے، روزے اسکی شہوت توڑ دینگے) میں مقصود ہے؛ بہت سے لوگوں نے اس حدیث سے یہ سمجھا ہے کہ روزوں کا حکم بدن کو کمزور کرنے کیلئے ہے جس سے شہوت دم توڑ جائے گی، اگرچہ یہ بات بھی درست ہے، لیکن اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ روزے کی برکت یا روزے کی حقیقت [کیونکہ روزے کا لغوی مطلب ہی اپنے آپکو روکنا ہے۔ مترجم]روزے دار کو ہر نقصان دہ چیز سے دور رہنے پر ابھارتی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ روزے دار کو [عام حالات میں ]جائز کھانے پینے سے روک دیا گیا تو حرام کام سے رکنا تو بالاولی منع ہوگا"انتہی

"فتاوى سبكی" (1/435)

دوسری بات:

اس حدیث میں روزے رکھنے کا حکم واجب طور پر نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، جیسا کہ تمام اہل علم کے ہاں اسکا یہی مطلب ہے، ہمیں کسی ایسے عالم کا علم نہیں جنہوں نے اسے وجوب کیلئے کہا ہو۔

چنانچہ ابن بطال رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"فقہائے کرام کی ایک جماعت نے یہ کہا ہے کہ نکاح مستحب ہے، اسکی شریعت میں ترغیب دلائی گئی ہے، جبکہ اہل ظاہر اس بات کے قائل ہیں کہ یہ مرد و عورت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔۔۔، انہوں نے حدیث کے ظاہری الفاظ کو دلیل بناتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے متعلق حکم کو واجب قرار دیا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص قسم کے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، اور یہ خاص قسم کے لوگ وہ ہیں جنہیں شادی میں تاخیر کی وجہ سے زنا میں پڑنے کا اندیشہ ہو، اور جن لوگوں کو اندیشہ نہیں ہے، وہ لوگ اس حدیث میں داخل ہی نہیں ہیں۔۔۔

نکاح کو مستحب کہنے والوں نے روزوں کے مستحب ہونے کیلئے دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو بنایا ہے، کہ اگر نکاح کے بدلے میں رکھے جانے والے روزے واجب نہیں ہیں ، تو روزوں کا مبدل منہ بھی واجب نہیں ہوگا"انتہی

"شرح صحيح بخاری" از ابن بطال (7/262) ،حافظ ابن حجر نے اسے : فتح الباری (9/110) میں نقل کیا ہے، اور اسکو ثابت بھی کیا ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب