الحمد للہ.
انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب تم ميں سے كوئى نماز ميں اونگھے تو وہ سو جائے حتى كہ اسے علم ہو كہ وہ كيا پڑھ رہا ہے "
صحيح بخارى كتاب الوضوء حديث نمبر ( 206 ).
ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
قولہ: فلينم، وہ سو جائے:
مہلب كہتے ہيں: يہ رات كى نماز ميں ہے؛ كيونكہ فرضى نمازيں نيند كے اوقات ميں نہيں، اور نہ ہى وہ اتنى لمبى ہيں كہ اس ميں نيند آنى شروع ہى ہو جائے. انتہى
اور ہم پہلے يہ بيان كر چكے ہيں كہ يہ سبب كى بنا پر آئى ہے؛ ليكن عمومى الفاظ كا اعبتار ہو گا، اور فرائض ميں بھى اس پر عمل كيا جائيگا اگر ايسا واقع ہو اور نماز كا وقت بھى باقى ہو.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ فرضى، نفلى اور رات اور دن سب نمازوں ميں عام ہے، ہمارا اور جمہور علماء كا مسلك يہى ہے، ليكن فرضى نماز اس كے وقت سے نہ نكالى جائے.
قاضى رحمہ اللہ تعال كہتے ہيں:
امام مالك اور ايك گروہ نے اسے رات كى نفلى نماز پر محمول كيا ہے كيونكہ وہ غالبا نيند كا وقت ہے.
اور اس كى علت دوسرى حديث ميں اس طرح بيان ہوئى ہے:
" جب تم ميں سے كسى نماز ادا كرتے ہوئے اونگھ آئے تو وہ سو جائے حتى كہ اس كى نيند جاتى رہے، كيونكہ اونگھتے ہوئے نماز ادا كرنے والے كو علم نہيں ہوتا كہ وہ بخشش طلب كر رہا ہے يا كہ اپنے آپ كو برا كہہ رہا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 212 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 786 ).
اس سے سمجھ آتى ہے كہ حديث ميں بيان كردہ اونگھ اور نيند كى حد اس درجہ كى ہو كہ انسان كو اپنى بات كى سمجھ نہ آرہى ہو.
واللہ اعلم .