الحمد للہ.
اس مسئلہ ميں اہل علم كا اختلاف ہے اور اس ميں دوقول ہيں :
پہلا قول :
اكثر علماء اسي كےقائل ہيں اور حنبلي مسلك ميں بھي صحيح يہي ہے كہ جب مسئلہ ميں والدين اور ايك سےزيادہ بہن بھائي ہوں تو ماں كوچھٹا حصہ اور باقي باپ كوملےگا اس ليے كہ اللہ تعالي كا فرمان ہے:
اگراس كےبھائي ہوں تواس كي ماں كےليےچھٹا حصہ ہے
اس آيت كريمہ كا عموم اس پر دلالت كرتا ہےكہ بھائي ماں كوايك تہائي سےمحروم كركےاسے چھٹا حصہ دلائيں گے چاہے بھائي خود وارث ہوں يا محروم رہيں .
شافعيوں ميں سے رملي رحمہ اللہ كہتےہيں : آپ يہ علم ميں ركھيں كہ پيچھےجوكچھ بيان ہوا ہے اس ميں حجب كي شرط وراثت ہے لھذا جو كوئي بھي كسي مانع جس كا بيان آگےآرہا ہے كي بنا پر وارث نہ بنے وہ كسي دوسرے كووراثت سےنہ تو بالكل محروم كرسكتا ہے اور نہ اس كےحصہ ميں كمي كرسكتا ہے يا اسي طرح محروم ہو ليكن ايك صورت ميں مثلا والد كےساتھ بھائي اس صورت ميں بھائي باپ كي وجہ سےمحروم رہيں گے اور ماں كوايك تہائي سے كم كركے چھٹے حصہ پر لےآئيں گے ، اور اس كے بيٹے دادا كےساتھ اس كےساتھ محروم ہونگے اور اسے چھٹے حصہ دلائيں گے , اور خاوند اور سگي بہن اور ماں اور والد كي جانب سےبھائي كي صورت ميں بھائي كوكچھ نہيں ملے گا باوجود اس كےكہ وہ سگي بہن كےساتھ مل كرماں كو چھٹے حصہ تك لےآئيں گے .
ديكھيں : نھايۃ المحتاج شرح المنھاج ( 6 / 16 )
اور مالكيہ كا مسلك يہ ہے كہ ( ہر وہ شخص جوكسي بھي حال ميں وارث نہيں بنتا وہ كسي وارث كومحروم بھي نہيں كرتا ) ليكن پانچ مسائل ميں : ... دوسرا: ماں باپ اور بھائي ماں كوچھٹے حصہ دلائيں گے اور باپ كي وجہ سے خود محروم رہيں گے اوروارث نہيں بنيں گے .
ديكھيں : حاشيۃ العدوي ( 2 / 388 )
دوسرا قول :
باپ كي بنا پر محروم بھائيوں كےساتھ ماں كوايك تہائي حصہ ملےگا ، يہ قول بعض متاخرين علماء كرام كا ہے اور شيخ الاسلام تقي الدين ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالي نےبھي اسےاختياركيا ہے .
اور باقي اصحاب اس كےخلاف ہيں :
اس كي وجہ : كہ بھائي ماں كواس وقت ايك تہائي سے چھٹہ حصہ پر اس وقت لائيں گے جب وہ وارث ہوں تا كہ وہ اس حجب نقصان سےخود فائدہ اٹھائيں اور مندرجہ ذيل فرمان باري تعالي سےاستدلال كيا جاسكتا ہے :
اگراس كےبھائي ہوں تواس كي ماں كےليے چھٹا حصہ ہے اس ميں باپ كا ذكر نہيں كيا تويہ اس پر دلالت كرتي ہے كہ يہ حكم بھائيوں كےساتھ اكيلي ماں كي صورت ميں ہے تواس طرح چھٹے حصہ كےبعد باقي سارا مال بھائيوں كا ہو گا ، عصرحاضر ميں حنابلہ ميں سے شيخ عبدالرحمن بن ناصر السعدي رحمہ اللہ تعالي نےاختيار كيا ہے ان كا قول ہے :
( صحيح يہ ہے كہ محجوب بھائي ماں كوايك تہائي سےمحروم نہيں كرينگے اس ليے كہ اللہ تعالي كا فرمان ہے : اگر اس كےبھائي ہوں اس سے مراد وارث ہيں - توجس طرح محجوب بوصف ان ميں شامل نہيں اسي طرح محجوب بشخص بھي ان ميں شامل نہيں ہوسكتا، اور اس ليے كہ فرائض كا قاعدہ ہے جووارث نہيں وہ نہ تو حجب حرمان اور نہ ہي حجب نقصان بن سكتا ہے ، اور اس ليے كہ ان كا ماں كےحصہ كو كم كرنے كي حكمت يہ ہے كہ ان كےليے مال متوفر ہوسكے م لھذا جب وہ وارث نہيں ہونگے تو وہ محروم بھي نہيں كرينگے ) واللہ اعلم .
ديكھيں : التحقيقات المرضيۃ للفوزان ( 87 - 88 )
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں :
فصل : بھائي ماں كوايك تہائي سےمحروم كركےچھٹہ حصہ تك اس وقت لائيں گے جب وہ وارث ہوں اور باپ كي بنا پر محروم نہ ہوں تو ماں، باپ ، اور بھائيوں كي صورت ميں ماں كو ايك تہائي ملےگا , اوراجماع كي بنا پر دادا ماں كي طرف سےبھائيوں كو ساقط كردےگا ، اور اسي طرح والدين يا باپ كي جانب سے بھي ، يہ امام احمد سےايك روايت ہے ، اور بعض حنابلہ نےاسے اختيار كيا ہے ، اور صحابہ كرام ميں سے ابوبكر الصديق وغيرہ رضي اللہ عنھم كا مذھب ہے .
ديكھيں : الفتاوي الكبري ( 5 / 446 )
اس ليےكہ اس مسئلہ ميں اختلاف پايا جاتا ہے لھذا آپ اپنےملك كےقاضي سے رابطہ كريں اس ليے كہ حاكم كا حكم اختلاف كوختم كرديتاہے .
واللہ اعلم .