الحمد للہ.
امتحانات وغیرہ میں نقل کرنا حرام ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں ہے) مسلم: (101)
اگر کوئی کبھی نقل میں ملوث رہا ہے تو وہ اللہ تعالی سے توبہ کرے، یہ لازم نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے سامنے اقرار کر کے اپنے آپ کو رسوا کرے، بلکہ اسے چاہیے کہ اللہ تعالی نے جو پردہ رکھا ہوا ہے اسے قائم رکھے، اور اپنے کیے ہوئے گناہ پر نادم ہو، اور آئندہ کبھی بھی یہ عمل نہ دہرائے، چنانچہ صحیح مسلم: (2590) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی جس کسی بندے پر دنیا میں پردہ رکھے تو اللہ تعالی قیامت کے دن بھی اس پر پردہ رکھے گا۔)
یہ بشارت ایسے شخص کے لیے جس پر اللہ تعالی نے پردہ رکھا اور وہ گناہ سے توبہ تائب ہو گیا کہ اللہ تعالی آخرت میں اس گناہ سے پردہ فاش نہیں فرمائے گا، اسی مفہوم کی تصدیق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسند احمد: (23968) کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین باتیں قسم اٹھا کر بیان کرتا ہوں: جس شخص کے پاس اسلامی شعار ہو تو اللہ تعالی اسے ایسے شخص کی طرح نہیں بنائے گا جس کے پاس کوئی اسلامی شعار نہ ہو؛ اور اسلام کے تین شعار ہیں: نماز، روزہ، اور زکاۃ۔ اللہ تعالی جس بندے کا دنیا میں خود والی ہو تو قیامت کے دن اسے کسی اور کے سپرد نہیں کرے گا۔ اور انسان کسی بھی قوم سے محبت کرے تو اللہ تعالی اسے انہی میں شامل کر دیتا ہے۔ اور چوتھی بات پر بھی اگر میں قسم اٹھاؤں تو مجھے امید ہے کہ میں گناہ گار نہیں ہوں گا کہ اللہ تعالی جس بندے کے عیوب پر دنیا میں پردہ رکھے تو اللہ تعالی قیامت کے دن بھی اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا۔) اس حدیث کو البانی نے سلسلہ صحیحہ : (1387) میں صحیح قرار دیا ہے۔
بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے گناہوں پر پڑے پردے کو قائم رکھنے کا حکم دیا اور فرمایا: (ان بری باتوں سے بچو جن سے اللہ تعالی نے روکا ہے، چنانچہ اگر کوئی پھر بھی ان کا مرتکب ہو جائے تو اللہ تعالی کی طرف سے رکھے گئے پردے کو چاک نہ کرے۔) یہ حدیث امام بیہقی نے روایت کی ہے اور البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ : (663) میں صحیح قرار دیا ہے۔
مندرجہ بالا تفصیلات کی بنا پر:
اگر کوئی دوران امتحانات نقل میں ملوث رہا تو وہ توبہ کرے، اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرے اور اپنے اس عمل کو بیان نہ کرے۔
اور اگر آپ نے اپنی کلاس فیلو سے خود سوال نہیں کیا، بلکہ آپ نے اس سے جواب سن لیا حالانکہ آپ نے اس سے سوال نہیں پوچھا تھا، تو پھر یہ نقل نہیں ہے، اور ان شاء اللہ آپ پر اس کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا کہ آپ نے جواب سن کر لکھ دیا حالانکہ آپ نے اس سے سوال ہی نہیں کیا تھا اور نہ ہی سوال کا جواب لینے کی کوشش کی تھی۔
لیکن معلمہ کی جانب سے نقل میں ملوث طالبات کے متعلق بد دعا کرنا جیسے کہ سوال میں اس کی تفصیل ہے تو اس کے بارے میں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اس میں حد سے تجاوز ہے؛ نقل معلمہ کے حق میں کمی نہیں ہے، نہ ہی نقل کا تعلق معلمہ کی ذات سے ہے، بلکہ نقل کا تعلق یہاں حقوق اللہ سے ہے، لہذا نقل میں ملوث طالبہ کو معاف کرنے یا نہ کرنے کا تعلق معلمہ کے ساتھ سرے سے نہیں ہے۔ اس لیے اگر معلمہ صرف اتنی بد دعا کرتی کہ نقل میں ملوث طالبہ کو اللہ اپنے سامنے رسوا کر دے، تو پھر بھی کوئی بات بن سکتی تھی، لیکن معلمہ نے دعا کرتے ہوئے موقع محل کی مناسبت سے غیر مناسب الفاظ اپنائے ہیں، ممکن ہے کہ معلمہ نے یہ الفاظ محض صرف اس لیے استعمال کیے ہوں کہ طالبات کو نقل سے روک دے اور نقل سے انہیں متنفر کر دے۔
اللہ تعالی ہم سب کو اور معلمہ صاحبہ سمیت تمام مسلمانوں کی کوتاہیاں معاف فرمائے۔
واللہ اعلم