سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

نئى نئى شادى ہوئى اور خاوند سے محبت نہ ہونے كى بنا پر طلاق كا مطالبہ كر ديا

137780

تاریخ اشاعت : 18-05-2011

مشاہدات : 6269

سوال

ميرى بہن كى شادى كو آٹھ ماہ ہوئے ہيں، اور اسے شكايت ہے كہ وہ اپنے خاوند سے محبت نہيں كرتى اس ليے طلاق چاہتى ہے، حالانكہ اس كا خاوند ايك اچھے اخلاق والا اور صاحب علم اور نوجوانوں ميں افضل ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ ان دونوں كى اصلاح كے ليے آپ مجھے كيا نصيحت كرتے ہيں، يا كہ ان كے ليے طلاق ہى مناسب ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب آپ نے بيان كيا ہے كہ وہ نوجوان اخلاق اور علمى طور پر سب سے افضل ہے، تو پھر ہمارى يہى نصيحت ہے كہ اسے صبر و تحمل سے كام لينا چاہيے، اور وہ طلاق طلب كرنے ميں جلد بازى مت كرے، كيونكہ حالات ميں تبديلى پيدا ہو كر اسے محبت ہو جائيگى.

آپ كى بہن كو اس كے اسباب تلاش كر كے اس كے علاج كى كوشش كرنى چاہيے، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كا سبب خاوند كے بعض تصرفات ہوں، يا پھر خاوند اپنى بيوى ميں دلچسپى نہ ليتا ہو اور دوسرى طرف مشغول ہو...

اس ليے آپ خاوند كے ساتھ آہستہ آہستہ كوشش كريں كيونكہ ہو سكتا ہے اس كو اپنى غلطى كا احساس ہى نہ ہوا ہو اس ليے اسے غلطى پر متنبہ كرنے كى ضرورت ہو.

اور اگر اس كے خاوند ميں كچھ صفات يا پھر ايسے تصرفات ہوں جسے اس كى بيوى پسند نہ كرتى ہو تو اسے انہيں ان كے مقابلہ ميں برداشت كرنى چاہيں جو اس ميں خير و بھلائى پائى جاتى ہے، كيونكہ كوئى بھى ايسا شخص نہيں جس ميں ہر چيز كامل ہو.

اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

مومن مرد مومنہ عورت سے بغض نہيں ركھتا، اگر وہ اس كى كسى بات اور كام كو ناپسند كرتا ہے تو پھر وہ اس كے كسى دوسرے اخلاق سے راضى ہو گا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1469 ).

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى خاوند كو چاہيے كہ وہ بيوى سے ناراض مت ہو كيونكہ اگر بيوى ميں كوئى برا اخلاق پايا جاتا ہے تو اس ميں ايسا بھى اخلاق ہو گا جسے خاوند پسند كرتا ہے، مثلا وہ زبان دراز تو ہو ليكن اس كے ساتھ ساتھ دين والى اور خوبصورتى و جمال كى مالك ہو يا پھر نرم دل ہو " انتہى

ابن جوزى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث سے مراد يہ ہے كہ: مومنہ عورت كو ايمان اس پر ابھارتا ہے كہ وہ اچھى خصلتوں كو استعمال كرے جسے مومن شخص پسند كرتا ہے، تو اس طرح وہ ايسى چيز بھى برداشت كر لےگا جسے ناپسند كرتا ہو " انتہى

ديكھيں: كشف المشكل ( 1044 ).

قارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں اشارہ ہے كہ كوئى دوست بغير عيب كوئى نہيں، اور اگر كوئى شخص عيب سے برى ہونا چاہتا ہے تو وہ بغير دوست كے رہ جائيگا، اور كوئى بھى انسان خاص كر مومن تو خصال حميدہ سے خالى نہيں رہتا اس ليے اسے ان خصال حميدہ يعنى اچھے اخلاق كا خيال كرنا چاہيے " انتہى

ديكھيں: مرقاۃ المفاتيح ( 10 / 181 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ نيكيوں اور برائيوں كے مابين موازنہ ہے، اللہ محفوظ ركھے بعض لوگ تو برائيوں كو ديكھتے ہيں اور اس پر حكم لگا ديتے ہيں، ليكن وہ نيكيوں كو بھول جاتے ہيں.

اور بعض لوگ نيكيوں كو ديكھتے ہيں ليكن برائيوں كو بھول جاتے ہيں، ليكن عدل و انصاف تو يہ ہے كہ انسان ان دونوں كے مابين مقارنہ اور موازنہ كرے، اور عفو و درگزر اور معافى كى طرف مائل ہو.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى لوگوں كو معاف كرنے والوں كو پسند كرتے ہيں، اس ليے اگر آپ كے دل ميں كسى شخص كے بارہ ميں بغض ہو تو آپ اس كى نيكيوں اور اچھائيوں كو ياد كر كے اپنے بغض كو دور كرنے كى كوشش كريں.

كيونكہ ہو سكتا ہے آپ اور اس كے مابين غلط فہمى ہو يا سوء معاشرت، يا معاملہ ميں غلط فہمى، ليكن وہ شخص اچھا اور فاضل اور لوگوں كے ساتھ احسان كرنے اور خير و بھلائى كو پسند كرنے والا ہو.

آپ اس كى يہ اچھائياں ياد ركھيں تا كہ اس نے آپ كے ساتھ جو برا معاملہ كيا ہے وہ اس نيكيوں كے پہلو ميں چھپ جائے " انتہى

ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 1827 ).

اور شيخ كا يہ بھى كہنا ہے:

" حاصل يہ ہوا كہ:

انسان كو چاہيے كہ جس كے ساتھ اس كا ازدواجى تعلق ہو يا پھر دوستى ہو يا خريد و فروخت كا معاملہ وغيرہ ہو تو وہ اس كے ساتھ عدل و انصاف كا معاملہ كرے، جب وہ اس كے كسى اخلاق سے ناراض ہو، يا پھر كسى معاملہ ميں اس سے برا سلوك كر بيٹھے تو اسے دوسرى جانب نيكيوں كو مدنظر ركھ كر ان ميں موازنہ كرنا چاہيے، كيونكہ يہى وہ عدل و انصاف ہے جس كا اللہ تعالى اور رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا ہے " انتہى

ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 324 ).

اور پھر اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

اور ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو حالانكہ وہ تمہارے ليے بہتر ہو، اور ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو پسند كرو حالانكہ وہ تمہارے ليے برى ہو، اللہ تعالى خوب جانتا ہے اور تم نہيں جانتے البقرۃ ( 216 ).

اور ايك مقام پر ارشاد ربانى ہے:

اور ان ( بيويوں ) كے ساتھ اچھے طريقہ سے بود و باش اختيار كرو، اور اگر تم انہيں ناپسند كرو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ تعالى اس ميں خير كثير پيدا كر دے النساء ( 19 ).

لہذا انسان نہيں جانتا كہ اس كے ليے خير و بھلائى كہاں ركھى ہے ؟

اور اكثر ہوتا ہے كہ خير تو وہيں سے ملتى ہے جس كے بارہ ميں انسان كا گمان ہوتا ہے كہ يہ شر ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بندہ اپنے نفس كى ہر مصلحت نہيں چاہتا چاہے اسے اس كے اسباب كا بھى علم ہو جائے تو وہ ظالم ہے، اور اللہ تو اپنے بندے كى مصلحت چاہتا ہے، اور وہ اسے اس كے اسباب كى جانب لے جاتا ہے.

ان كے بڑے اسباب ميں سے يہ ہيں:

بندہ جسے ناپسند كرتا ہے؛ كيونكہ اس كى مصلحت اس ميں ہے جسے وہ ناپسند كرتا ہے، اور يہ واجب ميں كئى گناہ زيادہ ہے " انتہى

ديكھيں: مدارج السالكين ( 2 / 205 ).

اس ليے بيوى كو چاہيے كہ وہ صبر و تحمل سے كام لے اور اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا كرے كہ وہ اس كے اور خاوند كے مابين موافقت پيدا كرے، اور انہيں خير و بھلائى پر جمع كرے، اور اسے شيطان مردود سے پناہ بھى مانگنى چاہيے، كيونكہ ہو سكتا ہے جو كچھ وہ پا رہى ہے وہ شيطانى وسوسہ ہو، اور اس كا كوئى صحيح سبب نہ ہو.

كيونكہ شيطان تو خاوند اور بيوى كے مابين جدائى اور عليحدگى كرانے پر حريص ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ اس عورت كا شرح صدر كرے، اور اسے اور اس كے خاوند كو خير و بھلائى پر جمع كرے

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 102637 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب