سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

اللہ تعالی کی اپنے اوپر کرم نوازی بیان کرنا چاہتا ہے، لیکن حاسدین کا خوف لاحق ہے!

137984

تاریخ اشاعت : 11-03-2015

مشاہدات : 14248

سوال

سوال: اللہ کا مجھ پر بہت فضل ہے، کہ اس نے مجھے زندگی میں بہت کامیابیاں عطا فرمائی ہیں، کاروبار، دین، اور مجموعی طور پر پوری زندگی میں مجھے کامیابی ہی ملی ہے، کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ میں اللہ کے فضل سے میرے ساتھ ہونے والے اچھے معاملات لوگوں ، اور دوستوں سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے حاسدین کا خوف لاحق ہو جاتا ہے، یہ خوف اس وقت مزید شدت اختیار کر جاتا ہے ، جب میں ایسے لوگوں کےسامنے اپنی آسودگی کا ذکر کروں جو خود زبوں حالی کا شکار ہیں، اس لئے مجھے ان سے حسد کا مزید خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، اور مجھے یہ بات کرتے ہوئے شرمندگی بھی ہو رہی ہے، لیکن حسد ہماری شریعتِ حنیف کی رو سے بھی ثابت شدہ حقیقت ہے، تو کیا اسے ایمان کی کمزوری سمجھا جائے گا؟، اور اگر میں کسی دن صبح یا شام کے اذکار پڑھنا بھول جاؤں تو پھر کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ آپ پراللہ تعالی کی نعمتوں کا حق ہےکہ آپ ان نعمتوں کا تذکرہ کریں ، یہ اللہ تعالی کے احسانات کا اقرار بھی ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ )
ترجمہ: اور اپنے رب کی نعمتوں کا تذکرہ کریں۔ [الضحى : 11]

ابو نضرہ رحمہ اللہ  سے منقول ہے کہ : "مسلمانوں  کا یہ نظریہ رہا ہے کہ  نعمتوں کا شکر انہ ادا کرنے کے طریقوں میں  نعمتوں کا تذکرہ کرنا بھی شامل ہے"انتہی
"تفسیر طبری" (24 / 489)

ابن قیم رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"اللہ کی نعمتوں کے تذکرے [یعنی: تحدیث نعمت]اور ان پر فخر میں فرق یہ ہے کہ  نعمتوں کا تذکرہ کرنے والا اصل میں نعمتیں  عطا کرنے والے کی بڑائی بیان کرتا ہے، جس کے ذریعےوہ  ان نعمتوں کو صرف اسی کی کرم نوازی ، اور احسان قرار دیتا ہے،  وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ، ان نعمتوں پر اسی کی ثنا خوانی کرتا ہے، لوگوں کو اللہ کے انعامات بتلاتا ہے، جس کا مقصد صرف اللہ کی بڑائی  ، حمد، اور ثنا بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جان کو اس بات کا عادی بنانا  مقصود ہوتا ہے کہ صرف اُسی سے مانگا جائے، اسی سے محبت اور امید لگائی جائے، چنانچہ ایسا شخص  اللہ کی نعمتیں بیان کر کے تحدیثِ نعمت کرتا ہے۔

جبکہ نعمتوں پر فخر کرنے وال شخص اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے باعث لوگوں پر زبان درازی کرتاہے، اور انہیں یہ باور کرواتا ہےکہ وہ ان سے اعلی، افضل، اور بڑا ہے، ہر وقت لوگوں کے سر چڑھ کر رہے، انہیں اپنا غلام سمجھے، اور ان نعمتوں کی وجہ سے لوگوں کو اپنی تعظیم و خدمت گزاری پر مجبور کرے یہ سب فخر وغرور کی علامات ہیں۔

نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "شیطان کے انسان کو پھنسانے کیلئے بہت سے مصالی[کونڈے]، اور  جال ہیں، انہی کونڈوں اور جالوں میں یہ بھی شامل ہے کہ: اللہ کی نعمتوں  پر اکڑاجائے، اللہ کے بندوں کو تکبر کا نشانہ بنایا جائے، اور اس  کی عنایات پر  شیخیاں بکھیری جائیں"
"الروح" (312)

ابن اثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مصالی" سے  شکاری رسیاں اور کونڈے مراد ہیں، یہ "مُصلَاۃ" کی جمع ہے، مطلب یہ ہے کہ :  دنیاوی اور شہوانی  ایسے اوچھے ہتھکنڈے  شیطان کے پاس ہیں جن سے لوگوں کو وہ باآسانی گمراہ کر دیتا ہے۔
"النهایۃ  فی غريب الحديث" (3/95)

دوم:
اللہ تعالی کی اپنے کسی بندے پر خصوصی رحمت   کے بدلے میں ثنا خوانی اگر چہ ایک اچھا عمل ہے، لیکن اگر اس کے نتائج حسد، کینہ کی شکل میں اچھے نہ ہونے کا خدشہ ہو تو  ان خصوصی نعمتوں کا تذکر ہ لوگوں کے سامنے مت  کرے، بلکہ  جیسے  عام  انداز میں لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں وہ بھی اللہ تعالی کی حمد و ثنا عام الفاظ میں بیان کرے ، اور اپنے اوپر ہونے والی خصوصی نعمت کا ذکر مت کرے۔

شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"[مذکورہ بالا آیت میں مذکور لفظ]( فَحَدِّثْ ) دینی اور دنیاوی تمام نعمتیں اس میں شامل ہیں، یعنی: ان نعمتوں کی وجہ سے اللہ کا شکر بجا لاؤ، اور اگر کوئی مصلحت نظر آئے تو اس نعمت کا نام بھی لو، اور اگر کوئی مصلحت نہ ہو تو مطلق طور پر اللہ کی ثنا خوانی کرو، نعمت کا ذکر مت کرو، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی نعمت کا ذکر کرنا  شکر الہی کا موجب ہے، اور اس سے اللہ کی محبت دل میں مزید تقویت حاصل کرتی ہے، کیونکہ دلوں میں کرم فرماؤں کی محبت فطری طور پر ودیعت کی گئی ہے"انتہی
"تفسیر سعدی" (ص928)

مناوی رحمہ اللہ  اس حدیث کہ "اللہ کی نعمت کا تذکرہ کرنا بھی شکر ہے، اور تذکرہ نہ کرنا ناشکری ہے" کی شرح میں کہتے ہیں:
"اس حدیث پر اس وقت عمل ہوگا جب  تحدیثِ نعمت پر  حسد یا اسی طرح کا کوئی اور اندیشہ نہ ہو، بصورتِ دیگر نعمت کو چھپانا بہتر ہے" انتہی
"فيض القدير" (3/369)

چنانچہ نعمت کو چھپانے کا معاملہ اس وقت آئے گا جب  حسد وغیرہ  پیدا ہونے کے قرائن بالکل واضح ہوں، اسکی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر ہر مسلمان کے بارے میں حسن ظن رکھنا چاہیے، اور معاملات کے نتائج اللہ کے سپرد کرتے ہوئے حاجت روائی اور مشکل کشائی کیلئے اسی پر توکل کرنا چاہیے۔

آپ کیلئے نصیحت یہ ہے کہ آپ ذکر الہی ، شرعی اذکار، صبح و شام کے اذکار، اور شرعی دم کے ذریعے اپنے آپکو محفوظ بنائیں، اور خصوصی طور پر سورہ فلق، اور سورہ الناس پڑھنے کا اہتمام کریں۔

اس بارے میں معاذ بن عبد اللہ بن خبیب اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ کے راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ تھا، تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کیساتھ علیحدگی میں ملنے کا موقع ملا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قریب ہوا تو آپ نے فرمایا: (پڑھو)، میں نے عرض کیا: "کیا پڑھوں؟" تو آپ نے پھر فرمایا: (پڑھو)، میں نے عرض کیا : "کیا پڑھوں؟" تو آپ نے فرمایا:  پڑھو: (قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔۔۔) آپ نے مکمل سورت پڑھی، پھر فرمایا: (قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ) پڑھو اور آپ نے یہ سورت بھی مکمل پڑھی، پھر فرمایا: (کسی نے بھی اللہ کی  پناہ حاصل کرنے کیلئے اس سے اچھے الفاظ نہیں  کہے)
نسائی (5429) اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"حاسدین، اور نظر بد لگانے والوں سے بچنے کا طریقہ یہ ہےکہ

1- اللہ تعالی پر مکمل اعتماد رکھے ،  حسد اور نظر بد کی طرف توجہ ہی نہ دے، اور اگر اس قسم کی  کوئی بات ذہن میں آئے بھی تو اس سے اپنے ذہن کو پھیر لے۔

2- کتا ب و سنت میں  موجود مفید اذکار اور وِرد کرے؛ انسان کیلئے یہ حفاظت کا بہترین  ذریعہ ہیں، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے آیت الکرسی کے بارے میں ثابت ہے کہ : (جس شخص نے رات کے وقت یہ آیت پڑھی تو اللہ کی طرف سے ایک محافظ اس کیلئے مقرر ہو جاتا ہے، اور صبح تک شیطان اس کے قریب نہیں آسکتا) " انتہی
فتاوى نور على الدرب" (13/274-275)

سوم:
اگر آپ صبح یا شام کے اذکار کسی دن کرنا بھول جائیں ، تو جس وقت بھی آپکو یاد آئیں  آپ  کر سکتے ہیں، چاہے وقت گزر بھی چکا ہو، اور صبح یا رات کا ابتدائی حصہ بیت چکا ہو تو بھی ان شاء اللہ کوئی حرج نہیں ، امید ہے کہ آپکو  صبح شام کے اذکار کی پابندی کی بنا پر اس کی برکت  ہر وقت حاصل ہوگی۔

ساتھ میں ہم یہ بھی بتلاتے چلیں کہ شرعی دم صرف صبح شام کے اذکار کا نام نہیں ہے، بلکہ شرعی دم کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے، اور یہ بھی  کہ  جو ذکر و اذکار  آپ کے رہ جاتے ہیں، اُن کی کمی پوری کرنے کیلئے آپ کثرت سے  ذکر و اذکار، اور تلاوت قرآن کریں، کیونکہ اِن کیلئے صبح یا شام کا کوئی وقت مخصوص نہیں ہے۔

ہم آپکو  ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب: " الوابل الصيب من الكلم الطيب " اور اسی طرح شیخ عبد الرزاق العباد کی کتاب: "فقہ الأدعیۃ والأذكار" پڑھنے کی نصیحت بھی کرتے ہیں۔

مزید کیلئے آپ سوال نمبر: (105471) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب