الحمد للہ.
جى ہاں جمعہ كا دن افضل دن ہے، اس كى فضيلت ميں بہت سى احاديث وارد ہيں جن سے اس كى فضيلت نماياں ہوتى ہے.
اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 9211 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
جمعۃ المبارك كے روز مسلمان شخص كے ليے بہت سى عبادات مشروع ہيں، جن ميں چند ايك يہ ہيں:
1 - نماز جمعہ كى ادائيگى:
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو! جب جمعہ كے روز نماز جمعہ كے ليے اذان دى جائے تو اللہ تعالى كے ذكر كى طرف دوڑ كر آؤ اور خريدوفروخت ترك كردو، يہ تمہارے ليے بہتر ہے، اگر تمہيں علم ہے الجمعۃ ( 9 ).
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے زاد المعاد ميں كہا ہے:
نماز جمعہ اسلام كے فرائض ميں سب سے زيادہ تاكيد والى ہے، اور يہ مسلمانوں كے عظيم اجتماع ميں سے ہے، اور يہ جمع ہونے والے اجتماعات ميں سب سے بڑا اجتماع ہے، عرفات كے اجتماع كے علاوہ سب سے زيادہ فرض ہے جس نے نماز جمعہ حقارت كى بنا پر ترك كيا اللہ تعالى اس كےدل پر مہر ثبت كر ديتا ہے. اھـ
ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 376 ).
ابو جعد ضمرى يہ صحابى رسول ہيں رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے حقارت كى بنا پر تين جمعہ ترك كيے اللہ تعالى اس كے دل پر مہر ثبت كرديتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1052 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 928 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
عبد اللہ بن عمر اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے منبر كى سيڑھيوں پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" لوگ جمعہ ترك كرنے سے باز آجائيں، وگرنہ اللہ تعالى ان كے دلوں پر مہر ثبت كر دے گا، پھر وہ غافلين ميں سے ہو جائينگے"
صحيح مسلم حديث نمبر ( 865 ).
2 - كثرت كے ساتھ دعا كرنا:
اس روز ايك وقت دعا كى قبوليت كا ہے، اگر اس ميں رب سے دعا كى جائے تو اللہ عزو جل قبول فرماتا ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ و سلم نے جمعہ كا دن كا ذكر كيا اور فرمانے لگے:
" اس ميں ايسى گھڑى ہے جو مسلمان بندے كے موافق آ جائے اور وہ اس وقت نماز ادا كر رہا ہو تو اللہ تعالى سے جو سوال كرے گا اللہ تعالى اسے وہى عطا فرمائے گا، اور انہوں نے اپنے ہاتھ سےاس وقت كے كم ہونے كا اشارہ كيا"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 893 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 852 ).
3 - سورۃ الكہف كى تلاوت كرنا:
ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے جمعہ كے روز سورۃ الكہف كى تلاوت كى اس كے ليے دونوں جمعوں كے درميان نور كى روشنى ہو جاتى ہے "
اسے حاكم نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 836 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
4 - رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر كثرت سے درود پڑھنا:
اوس بن اوس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تمہارا افضل ترين دن جمعہ كا روز ہے، اس ميں آدم عليہ السلام پيدا كيے گئے، اور اسى ميں فوت ہوئى، اور اس دن ہى صور پھونكا جائيگا، اور اسى ميں بے ہوشى ہو گى، لہذا مجھ پر كثرت سے درود پڑھا كرو، كيونكہ تمہارا درود مجھ پر پيش كيا جاتا ہے، صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہمارا درور آپ پر كيسے پيش كيا جائيگا حالانكہ آپ تو مٹى بن چكے ہونگے؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يقينا اللہ تعالى نے زمين پر انبياء كا جسم كھانا حرام كر ديا ہے"
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1047 ) ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نے سنن ابو داود كى تعلقات ميں اسے صحيح قرار ديا ہے ( 4 / 273 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 925 ) ميں صحيح كہا ہے.
سنن ابو داود كى شرح عون المعبود ميں ہے:
جمعہ كے روز پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس ليے ابھارا كہ يہ سب ايام كا سردار ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سب انسانوں كے سردار ہيں، لہذا اس روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھنے كى جو فضيلت اور امتيازى حيثيت حاصل ہے وہ كسى اور دن ميں نہيں. اھـ
ان فضائل اور عبادات كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جمعہ كے دن يا رات كو ايسى عبادت كے ساتھ مخصوص كرنے سے منع كيا ہے جو شريعت ميں وارد نہيں.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جمعہ كى رات كو باقى راتوں سے قيام كے ليے اور جمعہ كے دن كو باقى ايام سے روزہ كے ساتھ خاص نہ كرو، ليكن اگر كوئى شخص روزہ ركھتا ہو تو وہ روزہ اس دن آ جائے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1144 ).
سبل السلام ميں صنعانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ حديث جمعہ كى رات كو غيرمعتاد عبادت اور تلاوت قرآن كے ساتھ خاص كرنے كى تحريم پر دلالت كرتى ہے، ليكن جس كى نص وارد ہے مثلا اس دن سورۃ الكہف كى تلاوت كرنا... اھـ
اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث ميں جمعہ كى رات كو باقى راتوں سے نماز كے ليے خاص كرنے، اور جمعہ كےدن كو روزہ كے ليے خاص كرنے كى صريحا ممانعت پائى جاتى ہے، اور اس كى كراہيت پر سب كا اتفاق ہے " اھـ
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
علماء كا قول ہے:
جمعہ كے دن كو روزہ كے ساتھ خاص كرنے كى ممانعت ميں حكمت يہ ہے كہ: جمعہ دعاء اور ذكر واذكار اور غسل اور نماز كے ليے جلد جانے اور نماز جمعہ كا انتظار كرنے اور خطبہ جمعہ سننے اور جمعہ كے بعد كثرت سے ذكر كرنے جيسے عبادات كا دن ہے؛ كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور جب نماز ادا كى جا چكے تو زمين ميں پھيل كر اللہ تعالى كا فضل تلاش كرو، اور كثرت سے اللہ تعالى كا ذكر كرو.
اس كے علاوہ اس دن اور بھى كئى عبادات ہيں، اس ليے اس دن روزہ نہ ركھنا مستحب ہے، تو اس طرح ان وضائف اور عبادات كو چستى اور انشراح صدر كے ساتھ سرانجام دينے ميں ممد و معاون ہو گا، اور بغير كسى اكتاہت اور سستى كے اس سے لذت حاصل ہو گى.
يہ حاجى كے ليےبالكل ميدان عرفات ميں يوم عرفہ كى طرح ہى ہے، اس ليے اس كے حق ميں اس حكمت كى بنا پر روزہ نہ ركھنا سنت ہے... صرف جمعہ كے اكيلے دن كو روزہ كے ليے خاص كرنے كى ممانعت ميں معتبر حكمت يہى ہے.
اور ايك قول يہ بھى ہے كہ:
اس كا سبب يوم جمعہ كى تعظيم ميں مبالغہ كا خدشہ ہے، اسطرح كہ كہيں اس سے فتنہ ميں نہ پڑ جائيں جس طرح ايك قوم ہفتہ كے دن ميں فتنہ ميں پڑ گئى تھى، اور يہ سبب ضعيف اور كمزور ہے، جو نماز جمعہ اور جمعہ كےروز دوسرے مشہور وضائف اور اس كى تعظيم كے ساتھ مناقض ہے.
اور ايك قول يہ بھى ہے:
ممانعت كا سبب يہ ہے كہ: تا كہ اس كے وجوب كا اعتقاد نہ ركھ ليا جائے اور يہ بھى ضعيف ہے، سوموار كے دن كے ساتھ ٹوٹ جاتا ہے، كيونكہ سوموار كے دن روزہ ركھنا مندوب ہے، اور اس دور كے احتمال كى طرف ملتفت نہيں ہوا جائيگا، اور اسى طرح يوم عاشوراء اور يوم عرفہ كے دن روزہ ركھنے سے يہ سبب ٹوٹ جاتا ہے، صحيح وہى ہے جو ہم نے پہلے بيان كيا ہے. اھـ
واللہ اعلم .