سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

درس اور سبق کی وجہ سے مغرب کی بعد والی سنتیں چھوڑ سکتا ہے؟

138959

تاریخ اشاعت : 09-05-2016

مشاہدات : 7155

سوال

سوال: اساتذہ اور طلبا میں یہ بات عام ہو چکی ہے کہ اگر مغرب کے بعد درس اور سبق کا وقت ہو تو مغرب کی سنتیں ادا نہیں کرتے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ حصولِ علم نفل عبادت سے افضل ہے، تو کیا یہ انداز غلط ہے یا صحیح؟ ہمیں وضاحت سے بتلائیں، اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے اور آپکو لوگوں کیلیے فائدہ مند بنائے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

طلبا کیلیے صحیح انداز اور طرزِ زندگی  وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا تھا،اور ان کے بعد جتنے بھی آج تک علمائے کرام آئے ہیں ان کا طریقہ کار صحیح ہے اور وہ یہ ہے کہ: سب کے سب نوافل اور نفلی عبادات کا خصوصی طور پر اہتمام کرتے تھے، خیر المرسلین جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے شیدائی تھے، حقیقت یہ ہے کہ نبوی سنتوں پر عمل کرنے کیلیے سب سے آگے طلبا کو ہی ہونا چاہے، نیز سب سے پہلے سنتیں ادا کرنے کا حکم بھی انہی کو ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ عملی طور پر سیکھنے کیلیے وقت دیں گے، لہذا طلبا کو چاہیے کہ جو کچھ بھی پڑھیں اس پر عمل بھی کریں، اطاعت گزاری اور عبادات سر انجام دینے کیلیے دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

اگر ہم علمائے کرام کی جانب سے عبادات کو دی جانے والی اہمیت اور اس عبادت گزاری کیلیے عزم و ہمت ذکر کرنا شروع کر دیں تو بات بہت ہی لمبی ہو جائے گی۔

اگر امام احمد رحمہ اللہ کسی شاگرد کو اپنے پاس قیام کے دوران رات کو تہجد ادا نہ کرنے پر ڈانٹ پلاتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں: "میں نے آج تک علم حدیث کے ایسے کسی طالب علم کے بارے میں نہیں سنا جو رات کو تہجد نہ پڑھتا ہو" " الآداب الشرعية " (2/169)
تو اگر آج یہ سن لیں کہ علم حدیث کا طالب علم سنت مؤکدہ کی پابندی نہیں کرتا تو پھر کیا حال ہوگا؟!

اگر طالب علم علمائے کرام کی بات : "حصولِ علم نفل عبادات سے افضل ہے" کو غلط انداز سے سمجھے اور پھر اسی کے مطابق عمل کرنے لگے تو عبادات کی پابندی ہی ختم ہو جائے، بلکہ ایسے نفل روزے بھی نہ رکھے جن کی تاکید  کی گئی ہے، زبان ذکر الہی سے تر نہ رہے، [نفل]عمرہ کرنے کیلیے  سفر نہ کرے لوگوں کی بھلائی کا کوئی کام سر انجام نہ دے، اور ان سب امور کیلیے دلیل یہ دے کہ وہ حصولِ علم میں مصروف ہے!

ایسے شخص کو شیطان کے وار سے بچنا چاہیے -اللہ تعالی ہمیں اس سے بچائے- شیطان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ طالب علم کا دل اجاڑ دے، مسئلوں میں پھنسا کر اس کی عمل سے توجہ ہٹا دے، اور نیکی کی دعوت دینے سے بھی دور کر دے۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" طالب علم! میں آپ کو حصولِ علم کیلیے نیت خالص کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، جب علم حاصل ہو جائے تو اپنے آپ کو عمل پر مجبور کرو، کیونکہ علم شجر ہے تو عمل اس کا ثمر، علم پر عمل نہ کرنے والا کسی صورت میں عالم نہیں ہو سکتا، جب تک آپ صاحب علم نہیں ہیں آپ عمل سے مانوس نہیں ہو سکتے، اور اگر عمل میں کمی ہو تو تب بھی علم سے مانوس نہیں ہو سکتے، اس لیے علم و عمل دونوں یکساں حاصل کرو، چاہے علم و عمل تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں" انتہی مختصراً
" اقتضاء العلم العمل " (ص/14)

بلکہ کچھ سلف صالحین  طلبا کیلیے اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ طالب علم روز مرہ  امور سے ہٹ کر کوئی علم حاصل کرے، چنانچہ وہ نا قابل عمل علم سے روکا کرتے تھے۔

ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"امام مالک رحمہ اللہ سے کہا گیا: حصول علم کیسا عمل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: بہت اچھا عمل ہے، لیکن صرف روز مرہ کے امور سے متعلق علم حاصل کرو"
" سير أعلام النبلاء " (8/97)

ہمارے علمائے کرام اس بات کو بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ حصولِ علم نفل عبادات سے بہتر ہے، لیکن اس کے باوجود  حصولِ علم اور نفل عبادات میں تصادم نہیں سمجھتے تھے، نیز ان کے نزدیک اگر طالب علم خاطر خواہ نفل عبادات نہیں کرتا ، سنت مؤکدہ پر خصوصی توجہ نہیں دیتا تو یہ نیت میں فتور ، غلط فہمی ، اور شیطانی چال میں پھنس جانے کی دلیل ہے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حصولِ علم افضل ہے یا نفل نماز، تلاوت اور ذکر وغیرہ؟ اس بارے میں اختلاف ہے، تاہم جو طالب علم حصولِ علم کیلیے مخلص ہو، اچھے ذہن کا مالک ہو تو حصولِ علم کو ترجیح دینی چاہیے، لیکن پھر بھی نفل عبادات کا اہتمام لازمی کرے، چنانچہ اگر کوئی طالب علم حصولِ علم کیلیے تو بہت سنجیدہ ہو لیکن نفل عبادات کا اہتمام نہ کرے تو وہ حقیقت میں سست اور کاہل ہے، بلکہ حصولِ علم کیلیے حسن نیت کے دعوے میں سچا بھی نہیں ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص علم حدیث اور فقہ کبھی کبھار حاصل کرے اور دل کیا تو درس میں حاضر ہو گیا وگرنہ نہیں تو ایسے شخص کیلیے عبادات میں مشغول رہنا افضل ہے، بلکہ اس شخص کیلیے سرے سے موازنہ ہے ہی نہیں! یہ تو تھی اجمالی سی تقسیم۔ اللہ کی قسم! کم ہی لوگ ہیں جنہیں حصولِ علم کیلیے مخلص پایا۔
قصہ مختصر کہ آج کل جس انداز سے علم حدیث طلب کیا جاتا ہے وہ حصولِ علم کے زمرے میں ہی شامل نہیں ہوتا، بلکہ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ  سند عالی ہو جائے ، القابات مل جائیں، اس کیلیے کبھی تو کسی جاہل سے سند لی جاتی ہے تو کبھی نا سمجھ کھیلتے کودتے بچے کو اٹھا  کر سماعِ حدیث کروایا جاتا ہے، یا روتے ہوئے شیر خوار بچے کو حدیث سنائی جاتی ہے، یا عصرِ حاضر کے کسی مسئلہ پر گفتگو کرنے والے فقیہ کی مجلس میں بچے کو لایا جاتا ہے، یا کسی کیلیے کتاب کا قلمی نسخہ تیار کیا جاتا ہے۔

علمِ حدیث حاصل کرنے والوں میں سے سب سے اچھے شخص کی صورت حال یوں ہوتی ہے کہ وہ حدیث سنتے ہوئے راویوں کے نام لکھ رہا ہوتا ہے یا اونگھ لے رہا ہوتا ہے، متن حدیث پڑھنے والے کی اگرچہ دیگر افراد سے زیادہ کارکردگی ہوتی ہے لیکن اس کا ہدف بھی یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پڑھ ڈالوں، چاہے راوی کا نام ہی پڑھتے ہوئے تبدیل ہو جائے یا متن میں خرابی آ جائے یا حدیث ہی سرے سے موضوعات میں شامل ہو۔

ایسے لوگوں سے علم کوسوں دور ہوتا ہے، تو عمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مجھے ایسی حرکتیں گناہ لگتی ہیں، اللہ تعالی ہی ہمیں بچائے" انتہی
" سير أعلام النبلاء " (7/167)

اور ہمیں یہ خدشہ ہے کہ آج کل کے بہت سے طلبا کی صورت حال انہیں لوگوں جیسی ہو جن کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ  نے درد دل بیان کیا ہے کہ وہ حصولِ علم میں مشغول تو رہتے ہیں کہ علم کا تقاضا یعنی عمل نہیں کرتے۔

ہم آپ کیلی ابن حاج  مالکی رحمہ اللہ کی ایک لمبی نصیحت نقل کرتے ہیں جس میں انہوں نے طالب علم کو مختلف نفل عبادات کی پابندی کرنے کی تلقین فرمائی ، بلکہ انہیں حصولِ علم کے نام پر ترک کرنے سے بھی منع کیا، کیونکہ یہ عبادات ہی اصل علم ہیں۔

آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طالب علم کو چاہیے کہ اپنے آپ کو عبادات سے دور مت کرے، بلکہ ہر قسم کی کچھ نہ کچھ نفل عبادات ضرور کرے، کیونکہ یہ حصولِ علم کیلیے بھر پور ممد و معاون ثابت ہوگی؛ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(صبح  و شام [کی نماز ] اور رات [کے قیام] کے ذریعے تعاون حاصل کرو)  -اسے بخاری نے (39) روایت کیا ہے، اس حدیث کی شرح کیلیے سوال نمبر: 70314 کا جواب ملاحظہ کریں- اور جو چیز خود معاون ہو اسے چھوڑا نہیں جاتا۔

بنو اسرائیل میں سے جب کوئی علم حاصل کرنا چاہتا تو قلبی صفائی اور شرح صدر کیلیے پہلے چالیس سال تک محو عبادت رہتا، پھر کہیں جا کر علم حاصل کرتا تھا، کیونکہ ان کی عمریں بہت لمبی ہوتی تھیں، لیکن اس امت  کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
"میں نے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ چالیس سال کی عمر تک علم حاصل کرتے پھر عبادت کیلیے یکسو ہو جاتے، اور بستر گول ہی رکھتے تھے"
یہاں بستر گول رکھنے سے مراد ویسا ہی عمل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المباک کے آخری عشرے میں کیا کرتے تھے کہ سونے کی بجائے کمر کس کے اہل خانہ سمیت رات بھر عبادت گزاری کرتے تھے۔

اگر معاملہ ایسے ہی ہے تو حصول علم کی ابتدا میں ہی عبادت گزاری شروع کر دے، کیونکہ آج کل عمر اتنی لمبی نہیں ہوتی کہ بعد میں عبادت گزاری کا وقت ملے، ورنہ تو مقصد زندگی پانے سے پہلے ہی موت کے خدشات زیادہ ہوتے جائیں گے۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ:
"جو کچھ سیکھنا ہے سیکھ لو، تمہیں اللہ تعالی کی طرف سے صرف اسی وقت اجر ملے گا جب تم اس پر عمل کرو گے"

اور چونکہ علم کی حیثیت شجر اور عبادت کی حیثیت ثمر کی طرح ہے اس لیے شجر بے ثمر  کا بالکل کوئی فائدہ نہیں ہوتا، چاہے دیکھنے میں آنکھوں کو لبھائے بھی سہی لیکن اصل مقصود ثمر نہ ہونے کی وجہ سے اس کا سایہ وغیرہ بھی اصل ہدف کے مقابلے میں معمولی ہے۔

طالب علم کو ایسی عبادات سے گریز کرنا چاہیے جن میں معمول سے زیادہ مشقت ہو، یا حصولِ علم  میں رکاوٹ بنے؛ کیونکہ حصولِ علم نفل عبادات سے افضل ہے، جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے طالب علم شیطان کے دھوکے میں آ جاتے ہیں؛ کیونکہ شیطان انہیں حصولِ علم سے روک نہیں پاتا تو پھر انہیں ایسے ورد اور اذکار میں مشغول کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے حصولِ علم میں رکاوٹیں پیدا ہوں؛ اس لیے کہ علم ہی واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعے اپنا دفاع ممکن ہے، اور شیطان سے بچاؤ کا امکان ہے، چنانچہ جب شیطان مکمل طور پر حصولِ علم سے روکنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو پھر علم کی مقدار یا معیار متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے، نتیجتاً یہ ہوتا ہے کہ طالب علم اس بات کی طرف توجہ نہیں دیتے [اور دل میں کہتے ہیں]کہ ذکر و اذکار بھی نیکی میں شامل ہیں اور شیطان نیکی کا حکم نہیں دے سکتا، اس طرح طالب علم آسانی سے شیطان کے دھوکے میں آ جاتا ہے اور علم کی مقدار یا معیار میں کمی کا باعث بنتا ہے۔۔۔

اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو طالب علم کو مؤکدہ اور غیر مؤکدہ سنتوں کی ادائیگی کیلیے کمر کس لے چاہے یہ سنتیں فرضوں سے پہلے ہوں یا بعد میں۔

لیکن یہ بات واضح رہے کہ سنتوں کا اہتمام فرائض اور قضا نمازیں ہونے کی صورت میں ان سب کی ادائیگی کے بعد ہی کرے؛ کیونکہ اگر فرائض میں سے کچھ باقی ہو تو نفل عبادت نہیں کی جا سکتی۔

طالب علم کو چاہیے کہ نماز اشراق مت چھوڑے ؛ کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "اگر میرے والدین بھی دوبارہ زندہ ہو جائیں تو میں نماز اشراق نہیں چھوڑ سکتی" میرے والدین کے دوبارہ زندہ ہونے کی خوشی بھی مجھے ان کی ادائیگی سے غافل نہیں کر سکتی۔

اسی طرح قیام اللیل کا خصوصی اہتمام کرے، اپنے آپ کو قیام اللیل سے محروم مت رکھے، قیام اللیل کی مقدار وتروں کے علاوہ دس رکعات ہیں، ان رکعات میں قرآن کریم کی تلاوت کرے اور ہر رکعت میں معینہ مقدار میں تلاوت ہو کہ روزانہ دو یا تین پارے پڑھ لے؛ کیونکہ اللہ تعالی کو ایسے اعمال پسند ہیں جو ہمیشہ کیے جائیں چاہے کم ہی کیوں نہ ہوں، جیسے کہ حدیث میں بھی آیا ہے، قیام اللیل میں بہت سے فوائد ہیں اس لیے طالب علم کو ان فوائد سے محروم نہیں ہونا چاہیے۔

ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ بات آئے کہ: اگر طالب علم آپ کی بتلائی ہوئی باتوں پر عمل پیرا ہونا شروع ہو جائے تو اس سے طالب علم کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہونگی؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ:  ان عبادات کی برکتوں سے طالب علم اتنی رحمتیں اور عنایتیں ہوتی ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ ان برکتوں کی بدولت اسے بعد میں کئی گنا زیادہ برکتیں حاصل ہوتی ہیں، اگرچہ برکتوں کا حصول بہت کم ہوتا ہے کیونکہ علم و عمل دونوں کو یکجا کرنے والے ہی بہت کم ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ علم و عمل یکجا ہوں تو بہت سی برکتیں حاصل ہوتی ہیں۔

طالب علم کو نفلی روزوں کا اہتمام بھی کرنا چاہیے، یہ مت کہے کہ وہ حصولِ علم میں مشغول ہے؛ کیونکہ عام طور پر ایک ماہ میں تین دن کے روزے رکھنے سے کوئی مشقت نہیں ہوتی، اور اگر کوئی کسی شخص کا معمول بن جائے تو بالکل محسوس بھی نہیں ہوتا؛ یہی وجہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ اس پر عمل اس طرح کرتے کہ ہر دسویں دن روزہ رکھتے۔

روزوں کا معاملہ بھی نماز کی طرح ہے جیسے کہ پہلے گزرا ہے، یعنی کہ اگر 3 روزے رکھنے سے زیادہ کی ہمت ہو تو پھر زیادہ روزے رکھ لے لیکن یہ خیال رہے کہ اصل ہدف کے حصول میں کمی نہ آئے۔

اگر طالب علم کا یہ کہنا ہو کہ وہ دوران تعلیم ایک ماہ میں تین روزے نہیں رکھ سکتا تو ایسا طالب علم تین دن چھٹی کر لے اور روزہ رکھے، تا کہ وہ اس عظیم فضیلت سے محروم نہ رہے۔

اسی طرح طالب علم کو چاہیے کہ ہر قسم کی عبادت میں سے کچھ نہ کچھ ضرور عمل میں لائے، جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، زیادہ وقت سبق یاد کرے، مطالعہ، غور و فکر پر مشتمل تعلیمی سرگرمیوں میں صرف کرے ، اور اچھے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ، اپنے ان اساتذہ کی مجلس اختیار کرے جنہیں اللہ تعالی نے خیر و بھلائی کا ذریعہ بنایا ہے، اور ہمیشہ ان سب باتوں پر کار بند رہے" انتہی مختصراً
" المدخل " (2/132-139)

یہ مکمل گفتگو بہت ہی نفیس ہے، ہمیں اس پر عمل پیرا رہنے کی بہت ہی اشد ضرورت ہے۔

اس بنا پر: سوال میں مذکور طلاب کیلیے نصیحت یہ ہے کہ درس شروع ہونے سے پہلے مغرب کی سنتیں پڑھیں، پھر سب کے سب درس میں شریک ہو جائیں، اس طرح وہ دہرا فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو جائیں گے، ان شاء اللہ انہیں اجر اور علم دونوں ملیں گے، نیز اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ جس طالب علم کا گھر دور ہے یا مغرب کی نماز کسی اور مسجد میں ادا  کی ہے تو اس کیلیے ابتدائے درس میں ہی شرکت کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب