جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

رقم کاروبار میں لگائیں اپنے پاس نہ رکھیں اور اس کے لیے بہت زیادہ احتیاط سے کام لیں۔

سوال

اگر کسی شخص کے پاس دولت ہو اور وہ اس دولت کو سرمایہ کاری میں لگانا چاہے لیکن اس کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جس کے ذریعے تجارت کر سکے ، مثال کے طور پر یتیم بچوں کی دولت یا ایسے شخص کی رقم جس کے پاس کسی قسم کی تجارت  کا تجربہ نہیں ہے، تو اسلام اس کے لیے کیا حل پیش کرتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دولت کو تحفظ فراہم کرنا اور اسے ضائع ہونے سے بچانا شریعت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔

جیسے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بے شک اللہ تعالی تمہارے لیے قیل و قال ،  بہت زیادہ سوالات، اور دولت کو ضائع کرنا ناپسند کرتا ہے۔) اسے بخاری: (2408) اور مسلم: (593) نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: "دولت ضائع کرنا" کی تشریح میں پہلے گزر چکا ہے کہ اکثر اہل علم نے اس کو فضول خرچی کے معنی میں لیا ہے، جبکہ بعض نے اس کو حرام کاموں پر خرچ کرنے سے مقید کیا ہے، جبکہ اس کی تشریح میں مضبوط ترین موقف یہ ہے کہ : انسان شرعی طور پر جن دینی یا دنیاوی جگہوں میں خرچ کرنے کی اجازت ہے وہاں پر صحیح طریقے سے خرچ نہ کرے،  تو اس سے منع کر دیا گیا؛ کیونکہ اللہ تعالی نے دولت کو لوگوں کے فائدے کے لیے بنایا ہے، تو جب دولت کو کہیں بھی صحیح طریقے پر خرچ نہ کیا جائے گا تو اس سے لوگوں کے مفادات کو نقصان پہنچے گا، اب وہ نقصان دولت ضائع کرنے والا کا بھی ہو سکتا ہے اور دوسروں کا بھی۔ لیکن اس بات سے یہ چیز مستثنی ہو گی کہ: آخرت میں ثواب حاصل کرنے کی خاطر زیادہ سے زیادہ نیکی کی راہ میں خرچ کریں، تاہم اس میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ کسی اخروی اور اہم حق کی تلفی نہ ہو"  ختم شد

چنانچہ مال کو جمع کرتے رہنا اسے کاروبار  میں نہ لگانا بھی  اسی میں شامل ہو گا، اگرچہ اس کو دولت کے ضیاع میں شامل نہیں کیا جاتا البتہ یہ دولت کو ناکارہ بنانے میں ضرور شامل ہو گا، مزید بر آں یہ بھی کہ دولت کو کاروبار میں لگانے سے جو فوائد صاحب دولت کو حاصل ہونے تھے یا دوسروں کو وہ بھی حاصل نہ ہو سکے، اس لیے سرمایہ کاری سے عمومی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور پیسے کو روک کر رکھنے سے معاشرہ ان فوائد  سے  محروم ہو جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ فرض زکاۃ کی ادائیگی اور دیگر اخراجات کی بنا پر کم ہوتا جاتا ہے۔

اسی لیے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (جو شخص بھی اپنے کسی یتیم کا سرپرست بنے  اور یتیم کی ملکیت میں کچھ سرمایہ بھی ہو تو اس کے ساتھ تجارت کرے، اس سرمائے کو ایسے ہی نہ چھوڑے کہ زکاۃ کھا جائے) اسے اثر کو دارقطنی: (2/ 109)  اور بیہقی : (11301)  نے روایت کیا ہے اور ابن العربی نے اسے "عارضة الأحوذي"  (2/99) میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح امام بیہقی : (11303)   حکم بن ابو العاص سے بیان کرتے ہیں کہ مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: "تمہاری تجارت کرنے میں کوئی دلچسپی ہے؟ اس لیے کہ میرے پاس ایک یتیم کا مال ہے اور زکاۃ اس کو ختم کر تی جا رہی ہے " تو میں نے انہیں کہا: ہاں مجھے دلچسپی ہے، تو اس پر انہوں نے مجھے دس ہزار  اشرفیاں دیں، اور میں انہیں لے کر چلا گیا اور اللہ نے جتنی توفیق دی میں ان کی تجارت کرتا رہا، پھر عرصہ بعد میں واپس پہنچا اور عمر رضی اللہ عنہ سے ملا تو مجھ سے پوچھا: "پیسوں کا کیا بنا؟" تو میں نے کہا وہ تو ایک لاکھ اشرفیاں ہو گئیں ہیں۔

امام بیہقی  ہی نے : (11304)    پر ذکر کیا ہے کہ قاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے سرمائے کی زکاۃ ادا کرتی تھیں اور اس سرمائے سے بحرین میں تجارت بھی کی جاتی تھی"

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یتیم کے مال کی سرپرستی صرف اسی کو دی جائے جو مضبوط بھی ہو اور تجربہ کار بھی ، جو ذمہ داری اسے سونپی جا رہی ہے اس کی رکھوالی کرنے والا بھی ہو، اور اگر کوئی ان صفات کا حامل نہ ہو تو پھر اس کو مذکورہ صفات والے شخص سے بدلنا لازمی ہے۔۔۔ یتیم بچوں کی دولت کو سرمایہ کاری میں لگانا مستحب ہے؛ کیونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ: "یتیموں کے مال کو تجارت میں لگاؤ، مبادا اسے زکاۃ ہی نہ کھا جائے"" ختم شد
"الفتاوى الكبرى" (5/ 397)

اس بنا پر: جس شخص کے پاس سرمایہ ہے، یا وہ کسی یتیم کی دولت کا نگران یا سرپرست ہے  تو وہ اس دولت کو کاروبار میں لگائے، اور اس کے اضافے کے لیے محنت کرے، دولت کو ایسے ہی نہ رکھے کہ اسے زکاۃ اور اخراجات ختم کر دیں، ویسے بھی پڑی ہوئی دولت پر ضائع ہو جانے یا چوری ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے۔

لہذا اگر وہ خود سے تجارت کر سکتا ہے تو خود ہی تجار کرے، اور اگر خود تجارت نہیں کر سکتا تو کسی ایسے معتمد شخص کو تلاش کرے جو امانت دار بھی ہو، اور تجارت کے متعلق تجربہ بھی رکھتا ہو، تو اپنے سرمائے کو اس کے سرمائے سے ملا لے تو اس طرح دونوں کو فائدہ ہو جائے گا۔

اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ: اس سرمائے کو کسی ایسے اسلامی بینک میں رکھے جن میں شرعی اعتبار سے بالکل صحیح لین دین کیا جاتا ہے، سودی یا کوئی اور حرام کاروبار نہیں کیا جاتا۔

کچھ ایسے متخصص دفاتر بھی موجود ہیں جو معاوضہ لے کر تجارتی منصوبوں اور ان کے اہداف و مقاصد کے متعلق تحقیق  پیش کرتے ہیں، مزید منصوبے کے آغاز میں اس کی مکمل نگرانی اور پیروی بھی کرتے ہیں، تو ایسے دفاتر سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔

اس وقت چونکہ چور اچکوں کی بھر مار ہے،  لوگ کسی کا  مال باطل طریقے سے کھانے میں ذرا خوف نہیں کھاتے؛ اس لیے جس شخص کے پاس سرمایہ ہے وہ خوب چھان پھٹک کے بعد ہی کسی کو رقم تجارت کے لیے تھمائے۔

بہت ہی اچھا ہو گا کہ یہ کام حکومتیں کریں، لوگوں کے سرمائے کو خود کاروبار میں لگائے؛ کیونکہ لوگوں کی بہ نسبت حکومتیں یہ کام زیادہ اچھے انداز سے کر سکتی ہیں، لہذا حکومتیں لوگوں سے سودی قرض لے کر  انہیں ماہانہ بنیادوں پر متعین سودی نفع نہ دیں بلکہ حقیقی بنیادوں پر کاروبار کیا جائے، اور حکومت و عوام کے درمیان شرعی احکامات کے مطابق تجارتی معاہدہ طے پائے۔

جب تک حکومتوں کی جانب سے یہ کام نہیں کیا جاتا، اور لوگوں میں بھی امانت داری ناپید ہوتی جا رہی ہے، تو جس کے پاس پیسہ ہے اور وہ تجارت کا تجربہ نہیں رکھتا تو وہ ہر چور اور ٹھگوں کی نظروں میں آچکا ہے، اس سے لوگوں کا سرمایہ بھی ضائع ہو رہا ہے اور لوگوں کو کاروبار کی وجہ سے ملنے والے فوائد میں معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

ہماری اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ مسلمانوں کے حالات سنوار دے۔
واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب