الحمد للہ.
اول:
یوم عرفہ اور عرفہ کے دن کا روزہ ذو الحجہ کی نو تاریخ کو ہوتا ہے، جس کی تعیین ہر علاقے میں ذو الحجہ کے چاند کی رؤیت کے اعتبار سے ہوتی ہے، چنانچہ ایسا ممکن ہے کہ اہل مکہ کا دن مثال کے طور پر جمعرات ہو اور دیگر علاقوں میں بدھ کا دن ہو، یا کہیں ہفتہ ہو۔ نیز ایسی پابندی نہیں ہے کہ اگر کسی علاقے کا چاند کا مطلع اہل مکہ سے مختلف ہو تو وہ اہل مکہ کے مطابق عمل کریں، اہل علم کی آرا میں سے یہی موقف راجح ہے کہ اگر چاند کا مطلع الگ الگ ہو تو ہر علاقے میں ان کی رؤیت کا اعتبار ہوگا۔
لہذا اگر مسلمان برطانیہ میں رؤیت ہلال کا اہتمام کرتے ہیں تو وہاں پر تمام مسلمانوں کو ان کی رؤیت کا پابند ہونا چاہیے، اور اگر رؤیت ہلال کا اہتمام نہیں ہے تو پھر اپنے قریب ترین ملک کی رؤیت کو معیار بنائیں۔
نیز آپ اس مسئلے کی مزید وضاحت کیلیے سوال نمبر: (40720) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
دوم:
عرفہ کے دن دعا کی بہت ہی عظیم فضیلت ہے؛ اس بارے میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے، (اس دن ) میں نے اور مجھ سے پہلے انبیائے کرام نے سب سے بہترین دعا یہ کی ہے:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ " ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی شاہی ہے، اسی کیلیے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔) ترمذی: (3585) اس حدیث کو البانی نے صحیح الترغیب (1536) میں حسن قرار دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ فضیلت صرف ان لوگوں کیلیے ہے جو میدان عرفات میں ہوں؟ یا باقی جگہوں کیلیے بھی ہے؟
اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے، اور اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (70282) کے جواب میں گزر چکی ہے۔
چنانچہ اگر یہ کہیں کہ یہ فضیلت بقیہ تمام علاقوں اور خطوں کیلیے بھی ہے تو اس بارے میں یہی بات کہی جائے گی جو ابھی چند سطور پہلے کہی گئی ہے۔
انسان اپنے علاقے میں چاند کی رؤیت کے اعتبار سے نو ذو الحجہ کو دعا کرے گا، چاہے حجاج ان سے ایک دن پہلے یا بعد میں وقوف عرفہ کریں۔
واللہ اعلم.