منگل 2 جمادی ثانیہ 1446 - 3 دسمبر 2024
اردو

جب رمضان كي ابتداء اور يوم عرفہ كي تحديد مختلف ممالك ميں ايك نہ ہو تو مجھے كس كےساتھ روزہ ركھنا ہوگا ؟ !

سوال

بعض اسباب كي بنا پر ہم نے پاكستان ميں رہائش اختيار كرلي ہے، اور اس كي بنا پر بہت سے معاملات مختلف ہوچكےہيں مثلا نماز كےاوقات وغيرہ بھي بدل چكےہيں وغيرہ ... ميں يہ پوچھنا چاہتي ہوں كہ يوم عرفہ كا روزہ ركھنے كي رغبت ہے، ليكن پاكستان ميں ھجري تاريخ سعودي عرب سے مختلف ہے وہ اس طرح كہ پاكستان ميں آٹھ تاريخ ہو تو سعودي عرب ميں نو تاريخ ہوگي ... تو كيا ميں پاكستان كي آٹھ تاريخ يعني سعودي عرب كي نو تاريخ كےمطابق روزہ ركھوں يا كہ مجھے پاكستان كي تاريخ كےمطابق روزہ ركھنا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

چاندكا مطلع مختلف ہونے كي صورت ميں جب يوم عرفہ مختلف ہو جائے تو كيا ہم اپنےعلاقے كي رؤيت كےمطابق روزہ ركھيں يا كہ حرمين كي رؤيت كا اعتبار كيا جائےگا؟

شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا:

يہ اہل علم كےاختلاف پر مبني ہے كہ: آياساري دنيا ميں چاندايك ہي ہے كہ مطلع مختلف ہونے كي بنا پر چاند بھي مختلف ہے؟

صحيح يہي ہے كہ: مطلع مختلف ہونےكي بنا پر چاند بھي مختلف ہيں، مثلا جب مكہ مكرمہ ميں چاند ديكھا گيا تو اس كےمطابق يہاں نوتاريخ ہو گي، اور كسي دوسرے ملك ميں مكہ سے ايك دن قبل چاند نظر آيا تو ان كےہاں دسواں دن يوم عرفہ ہوگا، لھذا ان كےليے اس دن روزہ ركھنا جائز نہيں كيونكہ يہ عيد كا دن ہے ، اور اسي طرح فرض كريں كہ رؤيت مكہ سے ليٹ ہو اور اور مكہ مكرمہ ميں نوتاريخ ہو تو ان كےہاں چاند كي آٹھ تاريخ ہوگي تو وہ اپنے ہاں نو تاريخ كےمطابق روزہ ركھيں گے جو كہ مكہ كےحساب سے دس تاريخ بنےگي، راجح قول يہي ہے .

اس ليے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے :

( جب چاند ديكھو تو روزہ ركھو اور جب اسے ديكھو تو عيد كرو )

اوروہ لوگ جن كےہاں چاند نظر نہيں آيا انہوں نےچاند نہيں ديكھا، اور جيسا كہ سب لوگ بالاجماع طلوع فجر اور غروب شمس ميں ہر علاقے كے لوگ اسي علاقے كا اعتبار كرتےہيں، تواسي طرح مہينہ كي توقيت بھي يومي توقيت كےطرح ہي ہوگي .

ديكھيں: مجموع الفتاوي ( 20 )

شيخ رحمہ اللہ تعالي سے كسي ايك ملك ميں حرمين ( سعودي عرب ) كے سفارت خانے كےملازمين نے مندرجہ ذيل سوال كيا:

يہاں ہميں خاص كررمضان المبارك اور يوم عرفہ كا روزہ ركھنے ميں ايك مشكل درپيش ہے، يہاں بھائي تين اقسام ميں بٹ چكےہيں:

ايك قسم تو يہ كہتي ہےكہ: ہم سعودي عرب كے ساتھ ہي روزہ ركھيں گے اور اس كےساتھ ہي عيدمنائيں گے.

اور ايك قسم يہ كہتي ہےكہ: ہم جس ملك ميں ہيں اسي ملك كےساتھ روزہ ركھيں گےاور عيد بھي انہيں كےساتھ منائيں گے.

اور ايك قسم يہ كہتي ہےكہ: ہم رمضان المبارك كےروزے تواسي ملك كےمطابق ركھيں گےجس ميں رہتےہيں، ليكن يوم عرفہ سعودي عرب كےساتھ .

اس بنا پر ميري آپ سےگزارش ہے كہ رمضان المبارك اور يوم عرفہ كے روزہ ميں تفصيلي اور شافي جواب سے نوازيں، اس اشارہ كےساتھ كہ مملكت .... اور پچھلےپانچ برس سے ايسا نہيں ہوا كہ مملكت نہ تو رمضان اور نہ ہي يوم عرفہ ميں موافق آيا ہے، اس طرح كہ سعودي عرب اعلان كےايك يا دو روز بعد رمضان شروع ہوتا ہے اور بعض اوقات تين روز كےبعد .

شيخ رحمہ اللہ تعالي كا جواب تھا:

علماء كرام كا اس ميں اختلاف ہے كہ آيا مسلمانوں كےملك ميں ايك جگہ چاند نظر آجائے تو كيا سب مسلمانوں كواس پر عمل كرنا لازم ہوگا يا صرف وہي عمل كرينگےجنہوں نےديكھا ہے اور جن كا مطلع ايك ہے يا پھر جنہوں نےديكھا ہے ان پر عمل كرنا لازم ہوگا اور ان پر بھي جو ان كےساتھ ان كي ولايت ميں بستےہيں، اس ميں كئي ايك اقوال ہيں، اور اس ميں ايك اور اختلاف ہے.

اور راجح يہي ہے كہ يہ اہل معرفہ كي طرف لوٹتا ہے، اگر تو دوملكوں كے مطلع جات ايك ہي ہوں تو وہ ايك ملك كي طرح ہونگے، لھذا جب ايك ملك ميں چاند ديكھا گيا تو دوسرے كا بھي حكم ثابت ہوجائےگا، ليكن اگر مطلع مختلف ہے تو ہر ايك ملك كا حكم اس كےاپنےمطلع كےمطابق ہوگا، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالي نےيہي اختيار كيا ہے اور كتاب وسنت سےبھي يہي ظاہرہوتا ہے اور قياس بھي اسي كا متقاضي ہے.

كتاب وسنت سےدلائل :

اللہ سبحانہ وتعالي كا فرمان ہے:

تم ميں جوشخص اس مہينہ كوپائے اسےروزہ ركھنا چاہئے، ہاں جو بيمار ہو يا مسافر اسے دوسرے دنوں ميں يہ گنتي پوري كرني چاہئے، اللہ تعالي كا ارادہ تمہارےساتھ آساني كا ہے سختي كا نہيں، وہ چاہتا ہے كہ تم گنتي پوري كرلو اور اللہ تعالي كي دي ہوئي ہدايت كےمطابق اس كي بڑائياں بيان كرو اور اس كا شكر ادا كرو

تو آيت كا مفھوم يہ ہے كہ جواس مہينہ كو نہ پائے اس پرروزہ ركھنا لازم نہيں .

اورسنت كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

( جب تم اسے ( چاندكو ) ديكھو تو روزہ ركھو، اورجب جب تم اسے ( چاند كو ) ديكھو تو روزہ ركھنا چھوڑ دو )

اس حديث كا مفھوم يہ ہے كہ جب ہم چاند نہ ديكھيں تو روزے ركھنا لازم نہيں ہونگے اور نہ ہي عيد كرنا .

اور رہا قياس تواس كےبارہ ميں گزارش ہےكہ: اس ليے كہ ہر ملك ميں روزہ كھولنا اور سحري كھانا بند كرنا عليحدہ اور اس كے مطلع اورغروب شمس كے اعتبار سے عليحدہ ہوتا ہے، اور يہ محل اجماع ہے، آپ ديكھتےہيں كہ ايشيا ميں اہل مشرق اہل مغرب سے پہلے سحري بند كرديں گےاور اہل مغرب سے قبل ہي روزہ افطار بھي كريں گے، كيونكہ ان كےہاں فجر پہلے طلوع ہوتي ہے، اور اسي طرح ان كےہاں سورج بھي پہلے غروب ہوتا ہے، لھذا جب روزانہ سحري كا كھانا بند كرنے اور افطاري كرنے ميں يہ ثابت ہوچكا تو اسي طرح ماہانہ روزہ ركھنے اور روزہ چھوڑنے ميں بھي ايسا ہي ہوگا اس ميں كوئي فرق نہيں.

ليكن جب مختلف رياستيں ايك ہي ملك كےماتحت ہوں اور اس ملك كے حكمران نے روزہ ركھنے كا حكم دے ديا يا پھرروزہ افطار كرنے كا حكم ديا تو اس كا حكم ماننا واجب ہوگا، اس ليے كہ يہ مسئلہ اختلافي ہے اور حاكم كا حكم اختلاف ختم كرديتا ہے.

اس بنا پر آپ لوگ اسي طرح روزہ ركھيں اور عيد منائيں جس طرح اس ملك كےلوگ مناتےہيں جہاں آپ رہائش پذيرہيں چاہے وہ آپ كےاصل ملك كےموافق آئے يا اس كےمخالف ہو، اور اسي طرح يوم عرفہ ميں بھي آپ اسي ملك كےمطابق عمل كريں جس ميں رہائش پذ ير ہيں.

ديكھيں: مجموع الفتاوي ( 19 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب