الحمد للہ.
مرد كے ليے جائز نہيں كہ وہ بيوى كے علاوہ كسى اور عورت كو غسل دے، چاہے وہ اس كى محرم ہو يا اجنبى، ليكن اگر بچى سات برس سے چھوٹى ہو تو اسے غسل دے سكتا ہے.
اور اس بنا پر اگر كوئى عورت فوت ہو جائے اور وہاں نہ تو اس كا خاوند ہو اور نہ ہى كوئى عورت تو اسے غسل اور وضوء كى نيت سے تيمم كروايا جائےگا، تا كہ اس كى بے پردگى نہ ہو اور عورت كے پردہ كى حفاظت ہو سكے، كيونكہ غالب طور پر يہى ہے كہ جو بھى ميت كو غسل ديتا ہے، چاہے وہ پانى بہانے والا ہى كيوں نہ ہو اس كى نظر بھى پردہ والى جگہ پر پڑتى ہے، اور وہ اسے چھوتا بھى ہے، اور پھر اس كى سائڈ بھى تبديل كرنا ہوتى ہے، تا كہ اس كے سارے جسم پر پانى ڈالا جا سكے.
تو اس طرح اس عورت كے پردہ كو محفوظ ركھنے كے ليے تيمم زيادہ بہتر ہے جسے غسل دينے كے ليے كوئى عورت نہ ہو، اور اس ميں اس كى حفاظت كى بھى زيادہ احتياط ہے.
اور غسل دينے ميں بيوى كے ساتھ شرعى ملكيت ميں آنے والى لونڈى بھى ملحق ہوتى ہے، كہ فوت ہونے كى صورت ميں جب وہ مباح ہو يعنى وہ اپنے خاوند كى عصمت يا عدت ميں نہ ہو تو مالك اسے غسل دے سكتا ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے .