اول:
نفل نمازوں کے لیے جو وقت شرعی طور پر مقررہ ہے اسی وقت میں انہیں ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر کسی کی نفل نمازیں رہ جائیں تو بہتر ہے کہ ان کی قضا کی جائے، چاہے نفل نمازیں بھول کر رہ گئی ہوں، یا کسی مشغولیت کی وجہ سے فوت ہو گئی ہوں، یا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور جماعت شروع ہو جانے کی وجہ سے نماز کی پہلے والی سنتیں ادا نہ کر سکا ہو۔ اس کی دلیل سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم عصر کے بعد دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اے ابو امیہ کی بیٹی! تم نے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مجھ سے عبد القیس کے کچھ لوگ ملنے آئے تھے، انہوں نے مجھے ظہر کے بعد کی دو سنتوں سے مشغول کر دیا تھا، تو میں نے یہ دونوں رکعتیں بعد میں ادا کیں ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: 1233، صحیح مسلم: 834)
شافعیہ اور حنابلہ کا بھی یہی موقف ہے۔ اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (114233) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
نماز چاشت اور فرض نمازوں کی سنتیں ایک ہی نیت سے اکٹھی ادا نہیں کی جا سکتیں؛ کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذات میں مستقل مقصود لذاتہٖ عبادت ہے اور ایک دوسرے کی جگہ پر ادا نہیں ہو سکتیں۔
متعدد عبادات کو ایک ہی عمل میں جمع کرنے کے لیے یہی قاعدہ ہے کہ جو عبادات اپنی ذات کے اعتبار سے مقصود ہوں وہ آپس میں ضم نہیں ہوتیں، برعکس ان عبادات کے جن میں اصل مقصد صرف متعلقہ فعل سر انجام دیا جانا ہو۔
چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: کیا ماہانہ تین روزوں اور عرفہ کے روزے کی نیت ایک ساتھ کی جا سکتی ہے؟ اور کیا دونوں کا اجر ملے گا؟
انہوں نے فرمایا: ’’متعدد عبادات کو ایک نیت کے ساتھ ادا کرنے کی دو قسمیں ہیں:
پہلی قسم: وہ ہے جو درست نہیں، اور وہ اس وقت ہے جب عبادت اپنی ذات میں مقصود ہو یا کسی اور کے تابع ہو۔ ایسی صورت میں عبادات جمع نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر: کسی شخص سے فجر کی سنتیں رہ گئیں اور سورج طلوع ہو گیا، پھر چاشت کا وقت آگیا، تو فجر کی سنتیں چاشت کی نماز کے قائم مقام نہیں ہوں گی، اور نہ چاشت کی نماز فجر کی سنتوں کے قائم مقام ہو گی، اور نہ دونوں کو ایک ساتھ نیت کر کے پڑھا جا سکتا ہے؛ کیونکہ فجر کی سنتیں مستقل عبادت ہیں اور نماز چاشت بھی مستقل عبادت ہے، دونوں ایک دوسرے کی جگہ پر نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح اگر کوئی کہے کہ میں فجر کی فرض نماز اور اس کی سنتیں دونوں ایک ہی نیت سے پڑھوں، تو ہم کہیں گے کہ یہ درست نہیں؛ کیونکہ فجر کی سنتیں فرض رکعات کے تابع ہے جو فرض کے قائم مقام نہیں ہو سکتیں۔
دوسری قسم: وہ ہے جب عبادت میں اصل مقصود صرف عمل سر انجام دینا ہو، اور عبادت بذات خود مقصود نہ ہو۔ اس صورت میں عبادات جمع ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر: اگر کوئی آدمی مسجد میں داخل ہوا اور لوگ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، تو یہ معلوم ہے کہ مسجد میں داخل ہونے والے کے لیے دو رکعت پڑھنے سے پہلے بیٹھنا جائز نہیں۔ اب اگر وہ امام کے ساتھ فجر کی نماز میں شریک ہو گیا تو یہی دو رکعت تحیۃ المسجد کے قائم مقام ہو جائیں گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص چاشت کے وقت میں مسجد آیا اور اس نے چاشت کی نیت سے دو رکعات پڑھیں تو یہ دو رکعات تحیۃ المسجد کے لیے بھی کافی ہوں گی۔ اور اگر دونوں کی نیت کر لے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ یہی اصل اصول ہے عبادات کے آپس میں ضم ہونے کا۔
اسی طرح روزے میں بھی یہی حکم ہے۔ مثلاً: یومِ عرفہ کا روزہ، اس روزے کا مقصد یہ ہے کہ بندہ یہ دن روزے کی حالت میں گزارے۔ اب خواہ وہ نیت عرفہ کے روزے کی کرے یا مہینے کے تین دنوں میں سے کسی ایک دن کی۔ لیکن اگر اس نے صرف یومِ عرفہ کی نیت کی تو یہ روزے والے تین دنوں میں شمار نہیں ہو گا، اور اگر مہینے کے تین دنوں میں سے کسی ایک کی نیت کی تو یہ عرفہ کے روزے کی جگہ بھی کافی ہو گا، اور اگر دونوں کی نیت کر لی جائے تو یہ سب سے افضل ہے‘‘ ختم شد
ماخوذ از: لقاء الباب المفتوح، (51/15)
اس بنا پر چاشت کی نماز کو وتروں یا قضا شدہ تہجد کی دن میں ادائیگی کرتے ہوئے ایک ہی نیت سے جمع کرنا درست نہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا: کیا چاشت کی نماز کو قضا شدہ وتر اور تہجد کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے؟ اور کیا ان میں قراءت جہری ہو گی یا سری؟
انہوں نے جواب دیا: ’’چاشت کی نماز تو اپنے وقت پر پڑھی جائے گی، البتہ وتر اور تہجد اس سے پہلے قضا کیے جائیں گے۔ اور اگر دن میں وتر کی قضا کی جائے تو وہ طاق کے بجائے جفت کی صورت میں ہو گی۔ چنانچہ اگر رات کو تین رکعت وتر پڑھتا تھا تو دن میں چار پڑھے گا، اور اگر پانچ پڑھتا تھا تو دن میں چھ پڑھے گا اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرے گا‘‘ ختم شد
ماخوذ از: فتاوی نور على الدرب۔
واللہ اعلم