الحمد للہ.
اول:
شریعت اسلامیہ میں صلہ رحمی کا حکم ہے، اگر کوئی برا سلوک کرتا ہے تو اس کو معاف کرنے کی ترغیب ہے، بلکہ برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کا حکم دیا گیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ * وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
ترجمہ: اچھائی اور برائی یکساں نہیں ہو سکتی، برائی کو سب سے بہترین طریقے سے دور ہٹائیں گے تو وہ بھی جس کی آپ کے ساتھ عداوت ہے ایسا ہو جائے گا کہ گویا وہ بہت گہرا دوست ہے ٭ اور یہ بات صرف انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں ، یہ خوبی بڑے نصیب والے کو ہی دی جاتی ہے۔[فصلت: 34 ، 35]
علامہ سعدی رحمہ اللہ ان آیات کی تفسیر میں کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کا فرمان: وَلا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلا السَّيِّئَةُ یعنی مطلب یہ ہے کہ رضائے الہی کے لئے کی جانے والی نیکیاں اور بھلائیاں ، اللہ تعالی کو ناراض کرنے والی برائیوں اور گناہوں کے برابر نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح لوگوں کے ساتھ بھلائی اور ان کے ساتھ برا سلوک بھی برابر نہیں ہو سکتے، برائی اور بھلائی کی ماہیت، اوصاف اور بدلہ سب کچھ الگ الگ ہوتے ہیں؛ کیونکہ هَلْ جَزَاءُ الإحْسَانِ إِلا الإحْسَانُ بھلائی کا بدلہ بھلائی ہی ہوتا ہے۔
پھر اس کے بعد مخصوص نوعیت کی بھلائی کرنے کا حکم دیا، اور اس مخصوص بھلائی کی جگہ بھی خاص ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی آپ کے ساتھ برا سلوک کرے تو آپ اس کا بھلا کر دیں، اسی لیے فرمایا: اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ یعنی جب کوئی بد اخلاق شخص آپ سے زبانی یا عملی بد تمیزی کرے اور وہ ان لوگوں میں سے ہو جن کے آپ پر کافی حقوق ہیں ، مثلاً: رشتہ دار اور قریبی دوست احباب وغیرہ ؛ تو آپ اس کی بھلائی کریں، اگر وہ قطع تعلقی کرتا ہے تو پھر بھی آپ صلہ رحمی کریں، اگر وہ ظلم کرے تو آپ انہیں معاف کر دیں، اگر وہ آپ کے سامنے یا پیٹھ پیچھے آپ کے خلاف باتیں کریں تو آپ تب بھی اس کے خلاف باتیں نہ کریں بلکہ اسے معاف کر دیں، اس سے بات کریں تو نرمی سے کریں، اگر وہ آپ سے قطع تعلقی کرتا ہے یا آپ سے بول چال نہیں رکھتا تو اس کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو کریں، اس سے سلام میں پہل کریں، چنانچہ اگر آپ اس کے برے سلوک کے عوض اچھا سلوک پیش کرتے ہیں تو بہت بڑا فائدہ حاصل ہو گا: فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ یعنی جس کے ساتھ آپ کی دشمنی اور عداوت تھی وہ بھی آپ کا قریبی اور گہرا دوست بن جائے گا۔
وَمَا يُلَقَّاهَا یعنی یہ خوبی ہر کسی کو نہیں ملتی بلکہ صرف انہی لوگوں کو ملتی ہے جو من میں آنے والی چیزوں کو چھوڑ کر اپنے آپ کو اللہ کے پسندیدہ اعمال پر مجبور کر دیتے ہیں؛ کیونکہ انسانی فطرت یہی ہے کہ برا سلوک کرنے والے کے ساتھ برا سلوک ہی کیا جائے، اسے معاف نہ کیا جائے، اس کے ساتھ حسن سلوک تو بہت دور کی بات ہے۔
چنانچہ جب انسان اپنے نفس پر قابو پا کر اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرے اور تعمیل کی صورت میں ملنے والے وافر ثواب کو پہچان لے ، یہ بات ذہن نشین کر لے کہ برے کے ساتھ برا بننے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اسے بغض و عداوت میں اضافہ ہی ہوتا ہے، یہ بھی ذہن نشین کر لے کہ برے کے ساتھ بھلائی کرنے سے اس کی عزت میں کمی نہیں ہو گی بلکہ جو اللہ کے لئے اپنے آپ کو نیچا دکھائے تو اللہ تعالی اس کو بلندیاں عطا فرماتا ہے؛ ان سب باتوں کو مد نظر رکھے تو برے کے ساتھ بھلائی کرنا آسان ہو جاتا ہے، بلکہ ایسے شخص کے ساتھ بھلائی کرتے ہوئے لذت اور مٹھاس بھی حاصل ہوتی ہے۔
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ یعنی یہ خوبی صرف بڑے نصیب والوں کو ہی ملتی ہے؛ کیونکہ یہ خاص لوگوں کی خوبی ہے، اس خوبی کے ذریعے انسان دنیا و آخرت میں بلند مقام حاصل کر لیتا ہے جو کہ حسن اخلاق کا سب سے بڑا امتیازی نتیجہ ہے۔" ختم شد
صحیح مسلم : (2558) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: "اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتہ دار ہیں میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھے سے قطع تعلقی رکھتے ہیں، میں ان کا بھلا کرتا ہوں وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں، میں ان کے ساتھ بردباری سے پیش آتا ہوں اور وہ مجھ سے جاہلوں جیسا سلوک کرتے ہیں" اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر ایسا ہی ہے جیسے تم کہہ رہے ہو تو گویا کہ تم انہیں جلتی ہوئی راکھ کھلا رہے ہو، اور جب تک تم اپنے اسی انداز پر قائم رہو گے اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک مدد گار رہے گا۔)
دوم:
مندرجہ بالا جو کچھ ہم نے ذکر کیا ہے یہ لوگوں سے تعامل کا اعلی ترین طریقہ ہے، لیکن اگر کسی کے پاس اتنی ہمت نہ ہو ، یا ان کی ایذا رسانی اتنی زیادہ ہو کہ انسان کی بھلائی کار گر ہی نہ رہے، اور اس چیز کا بھی خدشہ ہو کہ اگر ان سے میل جول رکھا تو جادو یا کسی اور طریقے سے تکلیف پہنچائیں گے -سوال میں بھی اسی بات کی طرف اشارہ ہے- تو ایسی صورت میں ان سے قطع تعلقی کر سکتا ہے، اور ان کی شرارتوں سے بچنے کے لئے ان سے تعلق ختم کر سکتا ہے۔
جیسے کہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا اجماع ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لئے اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھنا جائز نہیں، ہاں اگر مسلمان سے گفتگو اور صلہ رحمی کے نتیجے میں خدشہ ہو کہ دینی طور پر نقصان ہو گا، یا اس سے تعلق کی بنا پر دینی یا دنیاوی خرابی پیدا ہو گی، تو اس کے لئے قطع تعلقی اور دور رہنے کی رخصت ہے، کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان خاموشی سے دور رہ کر فائدے میں رہتا ہے۔
شاعر بھی یہی کہتا ہے کہ:
إذا ما تقضي الود إلا تكاشرا ... فهجر جميل للفريقين صالح
اگر محبت سے نفرت ہی پیدا ہو تو اچھے انداز سے دوری دونوں فریقوں کے لئے بہتر ہوتی ہے۔" ختم شد
"التمهيد" (6/127)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میرے سسرال والے میرے اور میری بیوی کے درمیان معاملات میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں، تو ایسے میں ان سے تعلق اور میل جول ختم کرنے کا کیا حکم ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر ان سے ملنے جلنے کی وجہ سے آپ کو نقصان ہوتا ہے یا آپ کی بیوی کو خراب کرتے ہیں تو آپ کو اختیار ہے کہ ان کو ملنے مت جائیں، آپ اپنی بیوی کو بھی ان سے میل جول رکھنے سے منع کر سکتے ہیں۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (12/ 474-475)
واللہ اعلم