الحمد للہ.
اول:
اس مسئلے کو فقہائے کرام کی اصطلاحات میں "مسئلۃ الظَفر" [کھوئی ہوئی چیز کا مل جانا] کہا جاتا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ظالم آپ کا دیندار ہے، لیکن آپ اس سے اپنا حق وصول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تاہم آپ کو اس کی کوئی چیز مل جاتی ہے تو کیا آپ کے لئے اپنے حق کے مساوی اس چیز میں سے لینا جائز ہے؟
تو اس مسئلے میں اہل علم کی مختلف آرا ہیں: کچھ تو اسے جائز کہتے ہیں اور کچھ اس کو حرام گردانتے ہیں، جبکہ کچھ چند شرائط کے ساتھ اس کے جائز ہونے کے قائل ہیں۔
مزید تفصیلات کے لئے آپ : "شرح مختصر خليل" از خرشی(7/235) ، "الفتاوى الكبرى" (5/407) ، "طرح التثريب" (8/226-227) ، "فتح الباری" (5/109) ، اور "الموسوعة الفقهية" (29/162) دیکھیں۔
الشیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ممکن ہے کہ ہر شخص کے اعتبار سے اس کی صورت تبدیل ہو جائے: چنانچہ اگر یہ بات واضح ہو کہ دیندار شخص محض عناد، ٹال مٹول اور بلا وجہ تاخیر کی بنا پر ادائیگی نہیں کر رہا تو ایسے میں [اس کی ملی ہوئی چیز] لینا جائز ہو گا، جبکہ اگر کوئی ایسا سبب موجود ہو جس کی بنا پر اس کی چیز لینا منع قرار پاتا ہو تو پھر لینا جائز نہیں ہو گا، واللہ اعلم" ختم شد
شیخ محترم کی ویب سائٹ سے ماخوذ:
http://ibn-jebreen.com/ftawa.php?view=vmasal&subid=9518&parent=786
نیز پہلے سوال نمبر: (27068) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ اگر ظالم شخص کی کوئی چیز مظلوم کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اپنا حق بنا کسی زیادتی کے لے سکتا ہے، اور وہاں پر اسی موقف کو راجح قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ اگر مالک کا حق کرایہ کی مد میں ثابت شدہ ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف یا جھگڑا یا شبہ بھی نہیں پایا جاتا ، کرایہ دار سے کوئی لڑائی بھی نہیں ہے، تو پھر کرایہ دار کے مال میں سے اپنے کرایہ کی رقم کے برابر سامان لے سکتا ہے۔
لیکن اگر دونوں میں کرایہ کے استحقاق میں ہی اختلاف اور جھگڑا ہے تو ان میں فیصلہ قاضی ہی کرے گا۔
دوم:
اگر ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ مالک مکان کے لئے ٹیلی ویژن اور رسیور لینا جائز ہے تو پھر بھی مالک مکان اسے کسی حرام کام میں استعمال نہیں کر سکتا، مثلاً کہ اس ٹیلی ویژن کو فلموں اور ڈراموں جیسی حرام چیزیں اور فحاشی پھیلانے والی اشیا دیکھنے میں استعمال کرے، مالک مکان کے لئے ان کے ذریعے مسلم گھرانوں میں برائیاں پھیلانا جائز نہیں ہو گا، بلکہ یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اس ٹیلی ویژن کو کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کرے جس کے بارے میں غالب گمان یہی ہو کہ وہ اسے حرام جگہ استعمال کرے گا۔
جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (13/109) میں ہے کہ:
"جس چیز کو حرام کام کے لئے استعمال کیا جائے یا اس چیز کا غالب استعمال حرام کام میں ہو تو پھر ایسی چیزیں بنانا، درآمد کرنا، فروخت کرنا اور مسلمانوں میں اسے عام کرنا حرام ہے" ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ٹیلی ویژن جب کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت کیا جائے جو اسے مباح کام میں استعمال کرے مثلاً: ایسے لوگوں کو فروخت کرے جو لوگوں کے لئے مفید ویڈیو پیش کرتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر ٹیلی ویژن عوام الناس میں فروخت کرے تو اس کی وجہ سے اسے گناہ ہو گا؛ کیونکہ اکثر لوگ ٹیلی ویژن حرام کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ ٹیلی ویژن میں دکھائی جانی والی اشیا مباح بھی ہیں، مفید بھی ہیں اور ان میں حرام اور نقصان دہ چیزیں بھی ہوتی ہیں، لیکن اکثر لوگ ان دونوں میں فرق نہیں کرتے۔" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا
اللقاء الشهري" (1/49)
واللہ اعلم