الحمد للہ.
اس ميں تفصيل ہے؛ اگر وہ طلاق جس ميں اس نے رجوع كيا تھا پہلى طلاق تھى، اور پھر اس نے يہ طلاق دى تو اسے بھى ايك طلاق شمار كيا جائيگا اس طرح يہ دوسرى طلاق ہوگى چاہے اس نے كہا ہو اس ميں كوئى رجوع نہيں؛ كيونكہ يہ ايك طلاق كے حكم ميں ہے، چاہے وہ اس ميں يہ كہے طلاق بائن يا اس ميں رجوع نہيں، يا پھر تين طلاق كے الفاظ بولے؛ كيونكہ صحيح وہى ہے جو ہم فتوى دے رہے ہيں.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اسى كا ثبوت ملتا ہے جيسا كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں ہے وہ بيان كرتے ہيں:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں اور ابو بكر صديق كے دور ميں اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت كے ابتدائى دور ميں تين طلاق ـ ايك لفظ ميں ـ كو ايك طلاق ہى شمار كيا جاتا تھا "
اس طلاق كو بھى جمع كيا جائے تو يہ دو طلاقيں ہو جائيں گى اور خاوند كو رجوع كرنے كا حق حاصل ہوگا جب تك بيوى عدت ميں ہے، اور حاملہ بھى ہو تو عدت ميں رجوع ہو سكتا ہے اور باقى ايك طلاق رہ جائيگى.
ليكن اگر وہ سابقہ طلاق جس ميں رجوع كيا گيا تھا دوسرى طلاق تھى تو اس كے بعد رجوع نہيں ہے كيونكہ يہ تيسرى طلاق ہوگى تو اس طرح تين طلاقيں پورى ہو جائيں گى اور اسے رجوع كا حق نہيں رہےگا، اہل علم كا يہى قول ہے " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ .