الحمد للہ.
اول:
فقھاء كرام كى ايك جماعت كا بيان ہے كہ جب عورت كو خلوت كے بعد اور دخول سے قبل طلاق دے دى جائے تو وہ باكرہ ہى رہتى ہے، اور اسى طرح شادى كريگى جس طرح باكرہ اور كنوارى عورتيں كرتى ہيں.
درر الاحكام ميں درج ہے:
" جسے صحيح خلوت كے بعد طلاق ہوئى ہو اور اس كى بكارت زائل نہ ہوئى ہو، يا پھر دخول سے قبل طلاق ہو جائے تو وہ كنوارى لڑكيوں كى طرح ہى شادى كريگى، چاہے اس پر عدت واجب ہوتى ہے، كيونكہ وہ حقيقت ميں باكرہ ہے اور اس ميں حياء موجود ہے " انتہى
ديكھيں: درر الاحكام ( 1 / 336 ).
اور الفتاوى الھنديۃ ميں درج ہے:
" ہمارے اصحاب ( حنفى مذہب پر ) نے صحيح خلوت كو بعض احكام ميں وطئ كے قائم مقام كيا ہے....
اور بكارت زائل ہونے ميں خلوت وطئ كے قائم مقام نہيں ہوتى حتى كہ كنوارى عورت كے ساتھ خلوت كرے اور پھر اسے طلاق دے دے تو اس كى شادى كنواريوں كى طرح ہى كريگى " انتہى
ديكھيں: الفتاوى الھنديۃ ( 1 / 306 ).
اور كتاب " بلغۃ السالك للصاوي ( 4 / 354 ) اور الانصاف ( 8 / 284 ) ميں بھى اسى طرح كلام درج ہے.
اور اگر آپ كے مابين جھگڑے كا سبب يہ ہے كہ آپ كے خيال ميں انہوں نے اس نكاح ميں آپ كو دھوكہ ديا ہے، تو آپ شرعى عدالت سے رجوع كريں تا كہ وہ آپ كے مقدمہ كو ديكھ كر فيصلہ كرے.
دوم:
جب بيوى خاوند كى كسى كوتاہى اور ايسے سبب كے بغير ہى طلاق كا مطالبہ كرے جو طلاق طلب كرنے كا باعث نہ بن سكتا ہو، تو خاوند كو يہ مطالبہ رد كرنے كا حق حاصل ہے، اور وہ بيوى سے خلع كر سكتا ہے كہ وہ مہر واپس كرے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 26247 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .