اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مريض والدہ كى ديكھ بھال كرنے والا شخص شادى كرنا چاہتا ہے

145627

تاریخ اشاعت : 06-02-2011

مشاہدات : 5995

سوال

ميں چوبيس برس كا ہوں اور ميرى والدہ بہت زيادہ بوڑھى ہے، جب ميں دس برس كا تھا تو والد صاحب فوت ہو گئے تھے، چھ بہن بھائيوں ميں سب سے چھوٹا ہوں ميرے سب بہن بھائى شادى شدہ ہيں، ليكن ميرى شادى نہيں ہوئى جس كى بنا پر والدہ ميرے ساتھ ہى رہتى ہيں.
والدہ ضعيف اور كمزور اور مريض ہيں، اور انہيں ديكھ بھال كى اشد ضرورت ہے، ميں اپنى استطاعت كے مطابق والدہ كا خيال كرتا ہوں، ليكن انہيں مزيد ديكھ بھال كى ضرورت ہے مشكل يہ ہے كہ ميرا بڑا بھائى مصر ہے كہ ميں والدہ كو اپنے ساتھ ہى ركھوں كيونكہ ميرى شادى نہيں ہوئى.
اصل حقيقت يہ ہے كہ بھائيوں پر بھابھيوں كو دباؤ ہے اور وہ ميرى والدہ كو اپنے ساتھ نہيں ركھنا چاہتيں، اس ليے مجھے اكيلے ہى ہر وقت والدہ كے پاس رہنا پڑتا ہے، مجھے اس كى تو كوئى پريشانى نہيں كيونكہ اس سے مجھے اجر عظيم حاصل ہو رہا ہے.
ليكن جيسا كہ معلوم ہے كہ ايك آدمى توعورت كے حق كو پورا نہيں كر سكتا جس طرح دوسرى عورت كر سكتى ہے اور پھر عورتيں ايك دوسرى كا حال بھى جانتى ہے جو مرد كے علم ميں نہيں، ميرے پاس اس كا ايك اور حل بھى ہے كہ ميں شادى كر لوں، ليكن مجھے خدشہ ہے كہ ميرى بيوى بھى كہيں بھابھيوں كے نقش قدم پر چلتے ہوئے يہ نہ كہنا شروع كر دے كہ باقى كو چھوڑ كرصرف ميرے ذمہ ہى تو آپ كى والدہ كى خدمت كرنا فرض نہيں ؟!
يا پھر ميں كوئى ايسى بيوى تلاش كروں جو ميرى والدہ كى خدمت كرنے پر راضى ہو ليكن اس ميں وہ خوبصورتى و جمال نہ پايا جائے جو ميں پسند كرتا ہوں يا ايك مرد تلاش كرتا ہے، مجھے سمجھ نہيں آ رہى كہ ميں كوئى بھى لڑكى قبول كر لوں جو ميرى والدہ كى خدمت اور ديكھ بھال كے مقابلہ ميں كچھ شروط بھى ركھے اور مجھے وہ قبول كرنا پڑيں.
اور ميں اپنے بھائيوں كو اس كے متعلق بتاؤں اور آپس ميں والدہ كى ديكھ بھال كو تقسيم كر ليں، يا اس سلسلہ ميں كيا ہونا چاہيے ؟
اس كے ساتھ ساتھ مجھے يہ معلوم نہيں كہ ان كا رد عمل اور جواب كيا ہوگا، آيا وہ تسليم كريں يا نہيں اور اگر نہ مانيں تو پھر ان كے ساتھ معاملات كيسے ہوں ؟
برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں كوئى نصيحت اور راہنمائى فرما كر عند اللہ ماجور ہوں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ بيمار والدہ كى خدمت اور ديكھ بھال كرنے پر آپ كو اجر عظيم سے نوازے، اچھے اور عزت والے بچوں كى صفت يہى ہے كہ وہ اپنے والدين كى خدمت كرتے ہيں، اور يہ عمل ايسا ہے جو اللہ كے ہاں كبھى ضائع نہيں ہوگا.

اور پھر اس عمل كا اثر بھى اچھا اور مبارك ہے ان شاء اللہ آپ كو اس كا پھل دنيا و آخرت دونوں ميں نظر آئيگا، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ يہ عمل خالصتا اللہ كے ليے كريں، اور اپنى والدہ كے ساتھ حسن سلوك كے ساتھ پيش آتے رہيں، اس سے پيچھے مت ہٹيں.

بڑھاپے كى حالت ميں والدين كے ساتھ حسن سلوك كى وصيت كے بارہ ميں معلومات حاصل كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 49719 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

دوم:

اگر كوئى عورت نہ ملے جو والدہ كى ديكھ بھال كر سكتى ہو مثلا آپ كى بہن يا بھابھى تو پھر آپ كے ليے والدہ كى طہارت و لباس كے متعلق ديكھ بھال كرنے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ آپ اسے شرعى ضرورت كى بنا پر كر رہے ہيں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميرى بہن شادى شدہ ہے اور اللہ كى قدرت كے ميرى بہن كے سسر كو فالج ہو گيا ہے اور وہ صاحب فراش ہے اپنے بستر سے اٹھنے كى سكت نہيں ركھتا، ميرى بہن ہى اس كى ديكھ بھال كرتى ہے، اور ان كے پاس كوئى ملازمہ بھى نہيں، بلكہ وہى اسے دھوتى اور ليٹرين ميں لے كر جاتى ہے اور اس كا لباس تبديل كرتى ہے، كيا وہ ميرى بہن كا محرم شمار ہوتا ہے يا نہيں ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" اگر اس كى ديكھ بھال كے ليے كوئى مرد نہيں تو بہو كے ليے ضرورت كى بنا پر اپنےسسر كى ديكھ بھال كرنا جائز ہے ليكن وہ شرمگاہ پر پردہ ضرور ركھے، اور اس كے پيچھے سے اسے دھوئے اور اپنے ہاتھ پر دستانہ يا پھر لفافہ چڑھا لے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اپنى استطاعت كے مطابق اللہ كا تقوى اختيار كرو انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 424 ).

سوم:

آپ كى شادى كے سلسلہ ميں ہم آپ كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كسى مومن اور عفت و عصمت اور اطاعت و فرمانبردار عورت كو اختيار كريں جو آپ كى ذات كے حقوق كا خيال ركھے.

رہا آپ كى والدہ كا معاملہ اور آپ كى بيوى كا اس كى ديكھ بھال كرنا اس سلسلہ ميں عرض ہے كہ آپ جس دن رشتہ ديكھيں اور شادى كا پيغام ديں اسى دن سے آپ شادى ميں يہ شرط ركھيں كہ والدہ كى ديكھ بھال كرنا ہوگى، تا كہ بعد ميں كوئى چھپاؤ نہ رہے، بلكہ ابتدا سے ہى واضح ہو كہ بيوى نے آپ كى والدہ كى ديكھ بھال كرنى ہے.

اور آپ كى بيوى كو آپ كى بھابھيوں سے كوئى تعلق نہيں كہ وہ آپ كى والدہ كى خدمت كرتى ہيں يا نہيں، اگر وہ آپ كى اس سلسلہ ميں مدد و معاونت كريں تو الحمد للہ، اور اگر وہ اس كى مدد نہيں كرتيں تو پھر دوسروں كا آپ كى والدہ كے حق ميں كوتاہى كرنا يہ عذر نہيں بن سكتا كہ آپ كى بيوى بھى آپ كى والدہ كى خدمت نہ كرے اور وہ بھى اس كے حق ميں كوتاہى كى مرتكب ہو.

حالانكہ اصل ميں آپ كى بيوى پر آپ كى والدہ كى خدمت كرنا واجب اور ضرورى نہيں، ليكن اگر آپ شادى ميں يہ شرط ركھتے ہيں اور وہ يہ شرط قبول كر كے آپ سے شادى كرتى ہے تو پھر يہ شرط اس پر آپ كى والدہ كى خدمت اور ديكھ بھال لازم كريگى.

يہ تو آپ كى بيوى كے اعتبار سے ہے، ليكن آپ كے متعلق يہ ہے كہ آپ كو علم ہونا چاہيے كہ اصل ميں آپ كى والدہ كى خدمت آپ پر فرض ہے، اس ليے آپ اس سارا بوجھ اپنى بيوى پر مت ڈاليں، چاہے آپ شادى ميں اس كى شرط بھى ركھيں اور وہ قبول بھى كر لے.

بلكہ آپ پر واجب اور ضرورى ہے كہ آپ حسب استطاعت اس سلسلہ ميں اپنى بيوى كى معاونت كريں، اور يہ معاملہ آپس ميں تعاون و مدد كے ساتھ حل كريں، تو اللہ تعالى آپ دونوں پر اپنى مدد نازل كرتے ہوئے آپ كو توفيق ديگا اور اس سلسلہ ميں آپ كے ليے آسانى پيدا فرمائيگا.

ہو سكتا ہے آپ كے بھائيوں كو بھى اس سے شرم آئے يا پھر ا نكى بيويوں كو شرم آئے يا وہ بھى خير و بھلائى كى رغبت كرتے ہوئے آپ كى بيوى كے ساتھ والدہ كى خدمت ميں شريك ہو جائيں، اور اسى طرح آپ كى بہن بھى والدہ كى خدمت كرنے لگے.

پھر يہ كوئى ضرورى نہيں كہ جو آپ كى شرط قبول كرے وہ آپ كو ملنے والى پہلى عورت ہو، جيسے بھى اتفاق ہو اور جس حال ميں بھى ہو؛ بلكہ يہ ممكن ہے كہ آپ اس عورت ميں دين و امانت كے ساتھ ساتھ آپ كے حالات كو بھى قبول كرنے والا پائيں، اور اس كے ساتھ ساتھ معقول جمال و خوبصورتى اور مرغوب صفات بھى پائيں.

اور ہو سكتا ہے وہ دين پر عمل كرنے والى ہو اور آپ كى والدہ كى خدمت كو اجروثواب حاصل كرنے كى غرض سے قبول كر لے، اور اپنے خاوند كے گھر والوں كى خدمت سمجھتے ہوئے اجروثواب حاصل كرنے كى كوشش كرے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 130314 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

چہارم:

آپ كے ليے اس حالت ميں آپ كى والدہ كا مساج كرنا جائز نہيں كيونكہ ممكن ہے يہ كام عورتيں كريں، چاہے وہ آپ كى بہن ہو يا پھر بيوى يا يا بھابھياں يا كوئى دوسرى عورت چاہے اجرت كے ساتھ ہى.

كيونكہ مساج كے ليے ايسى جگہ منكشف كرنا پڑتى ہے جسے منكشف نہيں كرنا چاہيے، يا پھر مرد اسے مس نہيں كر سكتا، چاہے خاوند كے علاوہ كوئى محرم ہى كيوں نہ ہو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب