الحمد للہ.
زکاۃ کے مستحق ہونے کیلئے عاقل، بالغ، اور کھانا کھانے کی شرط نہیں
ہے، بلکہ جس کسی شخص میں فقر و غربت پائی جائے گی وہ زکاۃ کا مستحق ہے، جیسے کہ
قرآن مجید میں ہے:
(إِنَّمَا
الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ ...)
ترجمہ: بیشک زکاۃ فقراء اور مساکین
کیلئے ہے۔۔۔
[التوبہ:60]
اس لئے اگر کسی شیر خوار بچے کا مال نہ ہو اور نہ ہی کوئی اس کی کفالت کرنے والا ہو تو اسے زکاۃ میں سے دیا جا سکتا ہے، اور کفالت کرنے والا بچے کی ضروریات لباس، کھانا پینا، علاج اور دیگر اشیا میں زکاۃ صرف کر سکتا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہر چھوٹے بڑے کو زکاۃ دی جا سکتی ہے، چاہے وہ کھانا کھانے کے قابل ہو یا نہ ہو،
امام احمد کہتے ہیں: "گم شدہ شیر خوار بچے کو دودھ پلانے کی اجرت میں زکاۃ کی رقم
دی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ بچہ بھی فقراء میں شامل ہے" امام احمد ہی سے یہ موقف بھی
منقول ہے کہ زکاۃ صرف اسی کو دی جائے جو کھا پی سکتا ہو؛ تاہم ان کا پہلا موقف ہی
صحیح ہے، کیونکہ یہ بچہ بھی فقراء میں شامل ہے، اس لئے اسے زکاۃ دینا اسی طرح جائز
ہے جیسے کھانے پینے کی صلاحیت رکھنے والے بچے کو دینا جائز ہے، ویسے بھی شیر خوار
بچے کو دودھ ، کپڑوں، اور دیگر تمام اشیا کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح یہ بھی نصوص کے
عموم میں داخل ہوگا۔۔۔" انتہی
"المغنی" (2/268)
اور اگر کوئی اس بچے کی کفالت کرنے والا موجود ہو تو ایسی صورت میں اسے زکاۃ نہیں دی جا سکتی، کیونکہ اس کی ضروریات پوری ہونے کا بند و بست ہو چکا ہے۔
چنانچہ حاشیہ "قلیوبی وعمیرہ" (4/28) میں ہے کہ:
"جس شخص کا خرچہ کسی رشتہ دار یا خاوند کی وجہ سے پورا ہو رہا ہو تو صحیح موقف کے
مطابق وہ غریب اور محتاج نہیں ہے، بالکل ایسے ہی جیسے یومیہ مزدوری کرکے اپنی
ضروریات پوری کرنے والا محتاج نہیں ہے" انتہی
جمہور علمائے کرام نے شیر خوار بچے کو کفارے کا مال دینا بھی جائز قرار دیا ہے، جیسے کہ یہ سوال نمبر: (66886) میں بیان ہو چکا ہے۔
واللہ اعلم.