اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

بے دين عورت سے شادى كر لى

147166

تاریخ اشاعت : 02-08-2013

مشاہدات : 4347

سوال

ميں مسلمان ہوں اور انگلينڈ ميں ملازمت كرتا ہوں، تين برس قبل ميں نے ايك ايسى عورت سے شادى كى جس كا كوئى دين نہيں، كيا اس عورت سے شادى جائز ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كسى بھى مسلمان شخص كے ليے كسى ايسى كافرہ عورت سے شادى كرنا جائز نہيں جو نہ تو اللہ پر ايمان ركھتى ہو، اور نہ ہى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے نبى ہونے پر ايمان ركھے، اور نہ ہى قرآن مجيد پر ايمان ركھتى ہو.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم مشركہ عورتوں سے نكاح مت كرو جب تك كہ وہ ايمان نہ لے آئيں البقرۃ ( 221 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور کافر عورتوں کے ناموس اپنے قبضے میں نہ رکھو الممتحنۃ ( 10 ).

اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، دراصل ان کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمہیں ایماندار معلوم ہوں، تو اب تم انہیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں الممتحنۃ ( 10 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے كافر و مشرك عورتوں ميں سے صرف اہل كتاب ( يہوديوں اور نصارى ) كى عورتوں كو مستثنى كيا ہے، لہذا مسلمان كے ليے يہودى اور نصرانى عورت سے نكاح كرنا جائز ہے، ليكن اس كے علاوہ كسى اور كافرہ عورت سے چاہے وہ كسى بھى دين پر ہو نكاح كرنا جائز نہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے، اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں المآئدۃ ( 5 ).

سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قولہ تعالى: اور تم مشرك عورتوں سے نكاح مت كرو جب تك كہ وہ ايمان نہ لے آئيں .

كيونكہ مومنہ عورت جتنى بھى بدصورت ہو وہ ايك حسين و جميل اور خوبصورت مشركہ عورت سے بہتر ہے، اور يہ سب مشرك عورتوں ميں عام ہے، اسے سورۃ المآئدۃ كى آيت نے خاص كيا ہے، كہ اس ميں سے اہل كتاب كى عورتيں مباح ہيں، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں المآئدۃ ( 5 ). انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى صفحہ ( 19 )

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے اس ميں سے اہل كتاب كى عورتوں كى رخصت دى، ليكن اس كے علاوہ باقى سب مشرك عورتيں عموم ميں داخل ہونگى.....

اور اہل كتاب كے علاوہ باقى سارے كفار مثلا جو شخص كسى پتھر اور بت اور حيوان اور درخت كو بہتر سمجھ كر اس كى عبادت كرے، ان كى عورتوں سے نكاح اور ان كے ذبيحہ كى حرمت ميں اہل علم كا كوئى اختلاف نہيں " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 9 / 548 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل كتاب كے علاوہ دوسرى كفار عورتوں سے نكاح جائز نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

یہ ان کے لئے حلال نہیں اور نہ وہ ان کے لئے حلال ہیں الممتحنۃ ( 10 ). انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 21 / 76 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

" مسلمان شخص كے ليے كسى مسلمان يا كتابى عورت سے شادى كرنا جائز ہے، اور دوسرے سب اديان كى عورتوں سے جائز نہيں " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 275 ).

اور كميٹى كے علماء كا يہ بھى كہنا ہے:

" كسى مسلمان كے ليے يہودى اور نصرانى عورت كے علاوہ كسى دوسرى مشركہ عورت سے شادى كرنا جائز نہيں چاہے وہ عورت اس سے شادى پر راضى بھى ہو، چاہے مسلمان شخص نے اسے اپنے مسلمان ہونے كا بتايا ہو يا نہ بتايا ہو كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم مشركہ عورتوں سے نكاح مت كرو جب تك كہ وہ ايمان نہ لے آئيں البقرۃ ( 221 ).

اور جب مشركہ عورت اپنے شرك سے توبہ كر كے اسلام قبول كر لے تو مسلمان شخص كے ليے اس سے شادى كرنا جائز ہو جائيگا.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

الشيخ عبد اللہ بن قعود.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 311 ).

يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ كتابى عورت سے مراد وہ عورت ہے جو اپنے دين پر عمل كرتى ہو، چاہے ان كے علماء كى جانب سے دين ميں تحريف و كھلواڑ كے بعد ہى عمل كرتى ہو ليكن وہ عورت جو كتابى تھى اور پھر اپنا دين ترك كر كے ملحد بن گئى اور كسى بھى دين پر ايمان نہ ركھے تو ايسى عورت سے نكاح كرنا جائز نہيں.

تفسير ابن كثير پر شيخ احمد شاكر تعليق لگاتے ہوئے كہتے ہيں:

" قولہ تعالى:

اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے، اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں، المآئدۃ ( 5 ).

احمد شاكر رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ سب اہل كتاب كے ذبيحہ كے متعلق ہے، جب وہ اہل كتاب ہوں، ليكن امريكہ اور يورپ وغيرہ ميں اب جو لوگ نصرانيت اور يہوديت كى طرف منسوب ہيں ان كے متعلق ہم قطعى طور پر كہيں گے يہ اہل كتاب ميں شامل نہيں؛ كيونكہ انہوں نے اپنے دين سے بھى كفر كيا ہے، اگرچہ ان ميں سے صرف ظاہرى رسم و رواج مصنوعى عمل كر ركھا ہے، اس ليے ان ميں سے اكثر ملحد ہيں اللہ پر ايمان نہيں ركھتے اور نہ ہى انبياء پر ان كا ايمان ہے، ان كى كتابيں اور خبريں ہمارے سامنے ہيں.

انہوں نے ہر دين كے خلاف خروج كيا ہے، اور اخلاقيات و عزت كى دھجياں اڑا كر ركھ دى ہيں اور فحاشى و بے حيائى كے رسيا بن چكے ہيں، اس ليے ان ميں اہل كتاب كى صفت نہ ہونے كى بنا پر ان كى عورتوں سے نكاح جائز نہيں، اور نہ ہى ان كا ذبيحہ كھانا جائز ہے.

اور اس ليے بھى كہ وہ اپنے ملكوں ميں بالكل ذبح نہيں كرتے، بلكہ ان كے ہاں شرعى ذبح جانور كو تكليف و تعذيب دينے كا نام ذبح ہے ـ اللہ انہيں ذليل و رسوا كرے ـ اور وہ دوسرے طريقوں سے جانور قتل كرتے ہيں، جس كے بارہ ميں ان كا خيال ہے كہ يہ طريقہ جانور كى ليے زيادہ رحمدلانہ ہے، ان كے ہاں ہر قسم كا گوشت مردار ہے، كسى بھى مسلمان شخص كے ليے وہ گوشت كھانا جائز نہيں " انتہى

ديكھيں: عمدۃ التفسير ( 1 / 636 ).

اس بنا پر آپ كا اس كافرہ عورت سے شادى كرنا جائز نہيں، اور كسى بھى عالم دين كے ہاں ايسا كرنا صحيح نہيں، اس ليے آپ پر واجب اور ضرورى ہے كہ فورى طور پر اس عورت سے عليحدہ ہو جائيں، اور اس سے توبہ كريں، اور جو كچھ ہوا اس پر نادم بھى ہوں، اور اگر يہ عورت دين اسلام قبول كر ليتى ہے تو آپ كے ليے اس سے نيا عقد نكاح كرنا جائز ہو گا "

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب