اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

دین پر ثابت قدمی کے اسباب اور عوامل

سوال

ایسے کون سے وسائل ہیں جو کہ دین پر ثابت قدمی کا باعث بنتے ہیں؟ خصوصی طور پر مجھے ان کی بہت ضرورت ہے کیونکہ میرے آس پاس شہوت اور شبہات ابھارنے والے بہت سے ذرائع ہیں، میں جب بھی راستے میں چلتا ہوا جاتا ہوں تو مجھے موسیقی سنائی دیتی ہے، گھر میں بھی سڑک کی جانب سے موسیقی کی آواز داخل ہوتی ہے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سے فتنے ہوتے ہیں، نیز محترم شیخ صاحب ! میرے لیے ہدایت اور ثابت قدمی کی دعا لازمی کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

پر فتن دور میں دین پر ثابت قدمی کے وسائل کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم:

ایسے وسائل جن سے ایمان اور یقین مزید محکم اور پختہ ہو جاتا ہے، ان کی وجہ سے انسان مزید نیکیوں کیلیے کوشش  کرتا ہے اور عمل صالح بجا لاتا ہے، انہی وسائل کے باعث انسان  ایمان کی مٹھاس پاتا ہے۔

ان وسائل میں یہ شامل ہے کہ: اللہ تعالی کی جانب سے صراطِ مستقیم کی ہدایت مانگیں، اسی لیے ہر مسلمان اپنی ہر نماز کی رکعت میں لازمی طور پر کہتا ہے:
(اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ)
ترجمہ: ہمیں سیدھے راستے کی رہنمائی فرما۔

اسی طرح طبرانی کی معجم الکبیر :  (7135) میں شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (شداد بن اوس! جب تم لوگوں کو دیکھو کہ وہ سونا چاندی جمع کر رہے ہیں تو تم ان کلمات کو  ذخیرہ کرنا: " اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ، وَالْعَزِيمَةَ عَلَى الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ "[یا اللہ! میں تجھ سے دین پر ثابت قدمی  اور بھلائی پر پختگی  کا سوال کرتا ہوں، اور تجھ سے تیری رحمت اور تیری مغفرت کا موجب اور یقینی سبب بننے والے اعمال کا سوال کرتا ہوں])
اس حدیث کو البانی نے سلسلہ احادیث صحیحہ : (3228) میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح اللہ کے دین پر پختگی اور استقامت  کا اظہار ہو ،  دین کے بارے میں کسی قسم کی سستی اور کاہلی کا اظہار نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ )
ترجمہ: اور یقیناً میرا راستہ ہی سیدھا ہے ؛ چنانچہ صرف اسی پر چلو دیگر راستوں پر مت چلو، تو پھر تمہیں سیدھے راستے سے ہٹا دیں گے، اللہ تمہیں اسی بات کی تاکیدی نصیحت  کرتا ہے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[الأنعام :153]

ایسے ہی فرمایا:
( يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ )
ترجمہ: اللہ تعالی قولِ ثابت کے ذریعے ایمان لانے والوں کو دنیا اور آخرت میں ثابت قدم بناتا ہے۔[ابراہیم:27]

اس آیت کی تفسیر میں قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دنیا کی زندگی میں عمل صالح اور نیکیاں کرنے پر قائم دائم رکھتا ہے اور آخرت میں یعنی قبر میں بھی ثابت قدم بناتا ہے"
"تفسیر ابن کثیر" (4 / 502)

اسی طرح : [عبادات اور نظریات ہر اعتبار سے]سنت نبوی پر قائم رہنا، چنانچہ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (تم میری سنت  کو لازم پکڑو اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو بھی اور اسے اپنی ڈاڑھوں سے پکڑ لو، اپنے آپ کو نت نئے امور سے بچاؤ؛ کیونکہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)
ابو داود: (4607) اسے البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح: کثرت سے اللہ تعالی کا ذکر ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے سبب کے بارے میں کہتے ہیں:
"شیطان ابن آدم کے دل پر جم کر بیٹھ جاتا ہے تو جیسے ہی ذکر الہی بھول جائے اور غافل ہو جائے تو وسوسے ڈالتا ہے، پھر جیسے ہی اللہ کا ذکر کرے تو  پیچھے ہٹ جاتا ہے" انتہی
دیکھیں:  تفسیر طبری: (24 / 709-710)

دوسری قسم:

ایسے وسائل جن کی وجہ سے انسان فتنے میں نہیں پڑتا:

جیسے کہ: اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی، چنانچہ ابو داود: (4341) میں ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہارے بعد دین پر ڈٹے رہنے کے دن آنے والے ہیں، ان دنوں میں دین پر ڈٹے رہنا  انگارے ہاتھ میں لینے کے مترادف ہو گا، ان میں رہتے ہوئے عمل کرنے والے کا اجر پچاس عمل کرنے والوں کے برابر ہو گا) کہا گیا: "اللہ کے رسول! پچاس افراد انہی میں سے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پچاس افراد تم میں سے )
اس روایت کو البانی نے صحیح ابو داد میں صحیح قرار دیا ہے۔

ظاہری اور باطنی تمام فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگیں،  چنانچہ مسلم: (2867) میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ کرام کیلیے فرمایا: (تم ظاہری اور باطنی تمام فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگو) تو تمام صحابہ کرام نے کہا: " ہم ظاہری اور باطنی تمام فتنوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگتے ہیں"

اسی طرح ہر وقت اللہ تعالی کو اپنا نگران و نگہبان سمجھیں۔
چنانچہ ترمذی: (2516) میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اللہ تعالی کو یاد رکھو، اللہ تعالی تمہاری حفاظت فرمائے گا، تم اللہ تعالی کو یاد رکھو تم اسے اپنی سمت میں پاؤ گے)
اسے البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کے الفاظ: "تم اللہ تعالی کو یاد رکھو" اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب تک اللہ تعالی کے دین کو یاد رکھے گا اس کی تعلیمات پر عمل پیرا رہے گا  تو اللہ تعالی اس کی حفاظت فرمائے گا، اس کیلیے اپنے بدن، مال، اہل خانہ اور دین کے بارے میں اللہ تعالی کی تعلیمات سامنے رکھے، یہ اہم ترین ذریعہ ہے جس کے سبب اللہ تعالی آپ کو اس کے بدلے میں گمراہی اور کج روی سے محفوظ رکھے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی ہدایت کے متلاشی کو مزید ہدایت عطا فرماتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْواهُمْ)ترجمہ: اور جو لوگ ہدایت کے متلاشی ہوتے ہیں اللہ انہیں مزید ہدایت سے نوازتا ہے اور انہیں تقوی بھی عنایت فرماتا ہے۔
اور اس کے بر عکس: جو شخص جس قدر گمراہ ہو گا اللہ تعالی بھی اسے اتنا ہی گمراہی میں زیادہ کر  دے گا " انتہی
"شرح رياض الصالحین" (ص 70)

ایسے ہی نیک لوگوں سے دوستی اور تعلق بنائیں، ان کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں سب سے کنارہ کشی اختیار کریں۔

ابو داود: (4918) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایک مومن دوسرے کیلیے آئینہ ہے، ایک مومن دوسرے کا بھائی ہے، مومن اپنے بھائی کا نقصان نہیں ہونے دیتا، اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کا دفاع کرتا ہے)
اس روایت کو البانی نے صحیح ابو داد میں حسن قرار دیا ہے۔

اسی طرح ابو داود : (4833) میں ہے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (انسان اپنے دوستوں کے دین پر ہوتا ہے، اس لیے دیکھ لینا کہ کون کس سے دوستی کر رہا ہے)
اسے بھی البانی نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔

دین پر ثابت قدمی کا سب سے مفید ذریعہ یہ ہے کہ آپ فتنوں  کا سامنا ہی مت کریں، فتنوں سے جس قدر دور ہو سکتے ہیں دور ہو جائیں، ان کے اسباب سے بھی بچیں، اس طرح دل پاک صاف ہو جائے گا اور دل ایمان کی مٹھاس چکھ لے گا، جیسے کہ دجال کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو دجال کے بارے میں سنے تو وہ دجال سے دور ہی رہے؛ کیونکہ اللہ کی قسم! ایک آدمی اس کے پاس یہ سمجھتے ہوئے آئے گا کہ وہ پکا مومن ہے لیکن پھر بھی دجال کے شبہات کا شکار ہو کر اسی کا پیرو بن جائے گا)
ابو داود: (4319) اسے بھی البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔

ہم اللہ تعالی سے اپنے اور تمام مسلمان بھائیوں کیلیے دعا گو ہیں کہ  اللہ تعالی ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم رکھے، ظاہری اور باطنی تمام قسم کے فتنوں سے بچائے ۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب