سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

تقریبات میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا کیا حکم ہے، یہ عمل لوگوں کی عادت بن چکا ہے۔

سوال

ہمارے ہاں سورہ فاتحہ پڑھنا معمول کی بات ہے، اور ہر مسلمان اس کے جائز و ناجائز ہونے کے بارے میں بحث مباحثہ کرتا پایا جاتا ہے ، میں اس بارے میں جاننا چاہتا ہوں کہ آیا یہ اسلام میں جائز ہے یا نہیں، آپ اس بارے میں مجھے آیات و احادیث کی روشنی میں جواب دیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

سورہ فاتحہ قرآن مجید کی افضل ترین سورت ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی طرف سے جتنی بھی وحی رسولوں پر نازل کی گئی ان میں  سب سے افضل ہے، چنانچہ صحیح بخاری : (4474) میں ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں قرآن مجید کی اعظم ترین سورت سکھاؤں گا۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: مجھے دی گئی [وہ سورت]"الحمد لله رب العالمين"   ہے، [اسی کا نام]سبع المثانی  اور قرآن عظیم بھی ہے)

اسی طرح ترمذی : (2857)  میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں اس جیسی کوئی سورت نازل نہیں ہوئی، اسی کا نام سبع المثانی  اور قرآن عظیم بھی ہے اور یہ صرف مجھے دی گئی ہے) اسے البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ترمذی" صحیح کہا ہے۔

لیکن ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم یا آپ کے صحابہ کرام سورہ فاتحہ نکاح، تعزیت، تجارتی معاہدے کے وقت پڑھتے ہوں، اگر یہ کام خیر ہوتا تو ہم سے پہلے یہ کام ضرور کرتے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو بھی قول یا عمل صحابہ کرام سے ثابت نہ ہو اسے اہل سنت و الجماعت  بدعت کہتے ہیں؛ کیونکہ اگر وہ قول یا عمل خیر کا کام ہوتا تو صحابہ کرام اسے ضرور کرتے؛ اس لیے کہ انہوں نے خیر کا کوئی کام چھوڑا ہی نہیں سب پر انہوں نے عمل کر کے دکھایا ہے" انتہی
"تفسیر ابن کثیر" (7/278-279)

چنانچہ اگر سورت فاتحہ کو تقاریب میں پڑھنا دین کا حصہ ہوتا تو اس کام پر نیکیوں کیلیے سبقت لے جانے والے [صحابہ کرام]عمل کر کے دکھاتے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کرام ہی وہ شخصیات ہیں جنہیں ہر نیکی کا علم تھا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"نکاح کا عقد کرتے ہوئے سورت فاتحہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ کچھ لوگ تقریب نکاح کو فاتحہ پڑھنے کی رسم کہنے لگ گئے ہیں ، مثال کے طور پر اگر لوگوں نے اپنی شادی کے بارے میں بتلانا ہو تو کہہ دیتے ہیں : "میں نے فلاں لڑکی پر فاتحہ پڑھی" تو کیا یہ شرعی عمل ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"یہ شرعی عمل نہیں ہے، بلکہ یہ بدعت ہے، کیونکہ سورت فاتحہ سمیت دیگر کسی بھی سورت کو اسی وقت پڑھا جائے گا جہاں انہیں پڑھنے کی اجازت شریعت نے دی ہے، لہذا اگر کسی نے ان سورتوں کے پڑھنے کی شرعی جگہوں سے ہٹ کر کہیں اور اسے بطور عبادت پڑھا تو وہ بدعت شمار ہو گی، ہم نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ ہر تقریب میں سورت فاتحہ پڑھنے کا کہتے ہیں، حتی کہ ہم نے یہاں تک سنا ہے : "میت پر فاتحہ خوانی کرو" فلاں فلاں تقریب میں فاتحہ خوانی کرو،  یہ سب امور بدعت ہیں، اس لیے سورت فاتحہ سمیت کسی بھی سورت کو صرف اسی انداز میں پڑھا جائے گا جہاں کتاب و سنت کی روشنی میں انہیں پڑھنی کی اجازت ملے گی، وگرنہ یہ عمل بدعت شمار ہو گا" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (10/95)

ایک اور مقام پر انہوں نے کہا:
"تعزیت کے وقت سورت فاتحہ پڑھنا بدعت ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے کبھی بھی تعزیت کرتے ہوئے سورت فاتحہ یا کوئی اور سورت نہیں پڑھی"
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (13/1283)

اسی طرح شیخ صالح الفوزان کہتے ہیں:
"آج کل عبادات سے متعلق ایجاد شدہ بدعات بہت زیادہ ہیں، عبادات دلیل کے بغیر نہیں کرنی چاہیے، اور جس عمل کے بارے میں دلیل نہ ہو تو وہ بدعت ہوتی ہے ؛ اس بات کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان ہے: (جس شخص نے کوئی عمل ہمارے حکم کے بغیر کیا تو وہ مردود ہے) بخاری: (2697) مسلم: (1718)
آج کل بغیر دلیل کے کی جانے والی عبادات بہت زیادہ ہیں، مثال کے طور پر: نماز کی نیت بلند آواز سے کرنا، نماز کے بعد اجتماعی ذکر کرنا، تقریبات میں سورت فاتحہ کی تلاوت کرنا، مردوں پر سورت فاتحہ پڑھنا۔۔۔ " انتہی
ماخوذ از: " البدعة ( أنواعها وأحكامها)" من "مجموعة مؤلفات الفوزان" (14 / 15)
www.ajurry.com

اس لیے ہر مسلمان کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم   اور آپ کے صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کے فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بدعات سے دور رہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان ہے: (تم میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر مضبوطی سے کار بند رہو، اور اسے مضبوطی سے تھام لو، نیز اپنے کو [دین میں]نت نئے امور سے بچاؤ۔۔۔) ابو داود: (4607) اس روایت کو شیخ البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب