الحمد للہ.
اول:
سیرت نگار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف اقوال رکھتے ہیں، تاہم سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات گیارہ سن ہجری کو 12 ربیع ا الاول کے دن ہوئی تھی! اور یہی وہ دن ہے جس میں عوام الناس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا جشن مناتی ہے!!
اس بارے میں مزید کیلئے سوال نمبر: (125690) کے جواب کا مطالعہ کریں۔
دوم:
پوری شریعت اسلامیہ میں ایسا کوئی تہوار نہیں ہے جس کا نام "عید میلاد النبی" ہو، چنانچہ صحابہ کرام، تابعین عظام، اور تمام ائمہ کے عہد میں اس دن جشن منانا تو دور کی بات ہے، اس کا نام و نشان بھی نہیں تھا، بلکہ اس بدعت کی ایجاد باطنی بدعتی لوگوں نے کی پھر ان کے پیچھے سب لوگ لگ گئے اور اسے منانے لگے۔
اس بدعت کے منانے میں سے متعلق تفصیلی گفتگو سوال نمبر: ( 10070 ) ، ( 13810 ) اور ( 70317 ) کے جوابات میں ملاحظہ کریں۔
سوم:
کچھ سنت کے شیدائی اپنے ملک میں ہونے والے جشن عید میلاد کے جلسے اور جلوسوں سے متاثر ہو کر بدعت سے بچنے کیلئے صرف اپنے گھر کے لوگوں کو جمع کر تے ہیں، خصوصی طور پر کھانا تیار کیا جاتا ہے اور سب مل کر کھاتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ اپنے ساتھیوں اور عزیز و اقارب کیساتھ مل کر گھر میں اسی مقصد سے پروگرام منعقد کرتے ہیں ، اور کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت خوانی کیلئے اکٹھے ہوتے ہیں یا سیرت نبوی پر خطاب سنتے ہیں۔
اس میں یہ امر بھی شامل ہوتا ہے کہ آپ کا مقصد اتفاق و اتحاد اور غیر مسلم ملک میں اپنے دینی تشخص کی پاسداری یہ بہت اچھے مقاصد ہے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام اچھے مقاصد مل کر بھی عید میلاد النبی کے جشن کو جواز فراہم نہیں کر سکتے، بلکہ یہ جشن بدعت ہی رہے گا، چنانچہ اگر آپ کوئی تہوار منانا چاہتے ہیں تو عید الفطر اور عید الاضحی مسلمانوں کی دو عیدیں ہیں، اور اگر اس سے زیادہ آپ کو تہوار چاہییں تو ہر ہفتے ہمارے پاس جمعہ کا دن ہے، اس دن جمعہ کیلئے سب اکٹھے ہوں، اور دینی تشخص بیدار کرنے کیلئے اپنی پوری توانائی صرف کر دیں۔
اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر پورے سال کے دن آپ کے پاس موجود ہیں ، آپ کسی بھی دن جمع ہو جائیں بس یہ خیال رہے کہ ایسا کوئی دن نہ ہو جس میں خود ساختہ تہوار منایا جاتا ہو، بلکہ شادی بیاہ، عقیقہ، اور کسی بھی جائز تقریب میں جمع ہو کر آپ کے ذکر کردہ اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
ذیل میں اہل علم کے فتاوی جات ہیں جس میں مذکورہ نیتوں کیساتھ ان تقریبات کے منانے کا حکم موجود ہے۔
1- ابو حفص تاج الدین فاکہانی رحمہ اللہ جشن میلاد کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ایک قسم یہ ہے کہ: انسان اپنے ذاتی مال سے اپنے گھر والوں اور دوست احباب کیلئے کھانا تیار کرے اور اکٹھے بیٹھ کر کھانا تناول کریں، اس سے زیادہ اور کچھ نہ ہو، کسی قسم کا کوئی گناہ کا کام بھی نہ کیا جائے تو اسی قسم کے بارے میں ہم نے یہ کہا ہے کہ یہ بدعت اور برا عمل ہے؛ کیونکہ ایسا عمل ہمارے فقہائے اسلام، علمائے کرام، اور چمکتے ستاروں نے ماضی میں کبھی نہیں کیا"
" المورد في عمل المولد " ( ص 5 )
2- ابن حاج مالکی رحمہ اللہ گانے بجانے، موسیقی، اور مرد و زن کے اختلاط سے پاک جشن میلاد کے بارے میں کہتے ہیں:
"اگر عید میلاد میں یہ سب کچھ نہ ہو ، صرف کھانا بنا کر جشن میلاد منایا جائے اور دوست احباب کو بلائے تو صرف اسی نیت کی وجہ سے یہ عمل بدعت قرار پائے گا؛ کیونکہ یہ دین میں اضافہ ہے، سلف صالحین کا عمل نہیں ہے، چونکہ سلف صالحین کی اتباع اور ان کے نقش قدم پر چلنا ضروری امر ہے اس لیے ان کے طریقہ کار سے متصادم طریقہ اپنانے کی وجہ سے گناہ میں مزید اضافہ بھی ہوگا؛ کیونکہ سلف صالحین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے شیدائی تھے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر سختی سے عمل پیرا رہنے والے لوگ تھے، بلکہ اتباع سنت کیلئے وہ لوگ سب سے آگے تھے، لیکن اس کے باوجود کسی سے ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے کہ انہوں نے میلاد منایا ہو ، یا میلاد منانے کی نیت ہی کی ہو، ہم ان کے نقش قدم پر چلیں گے، اور وہی کچھ کرینگے جو انہوں نے کیا تھا، اور یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ سلف صالحین کی اتباع و پیروی حقیقی مآخذ و مصادر پر عمل کی صورت میں ہی ہے، یہی بات شیخ امام ابو طالب مکی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں بھی کہی ہے"
" المدخل " ( 2 / 10 )
3- کچھ لوگ احتیاط کا پہلو اپناتے ہوئے جشن میلاد میں گانے بجانے کی بجائے صحیح بخاری پڑھتے ہیں ، اب یہ عمل بذاتہ خود ایک عظیم عمل اور عبادت ہے، بلکہ خیر و برکت کا موجب بھی ہے، لیکن اس کیلئے شرط وہی ہے کہ اسے بھی اسی انداز سے سر انجام دیا جائے جیسے کہ اسے کرنے کا شرعی طور پر طریقہ بتلایا گیا ہے، جشن میلاد کی نیت سے نہ کیا جائے، اس کی مثال آپ یوں سمجھیں کہ نماز قرب الہی کے حصول کا عظیم ترین ذریعہ ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص نماز کے وقت سے پہلے ہی یا نماز کا وقت ہی نہ ہو تو ایسے وقت میں نماز ادا کرنا قابل مذمت اور شریعت سے متصادم ہوگا، اگر نماز کا یہ معاملہ ہے تو اس کے علاوہ دیگر امور کا کیا حال ہوگا؟!
" المدخل " ( 2 / 25 )
نیز سوال نمبر: (117651) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
خلاصہ یہ ہوا کہ:
آپ کے ذکر کردہ اہداف باہمی راوبط اور تعلقات کو فروغ دینے کیلئے بدعتی جشن کو منانا جائز نہیں ہے، چنانچہ ان عظیم مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے دیگر جائز مواقع کو استعمال کریں، اس کیلئے آپ سال کے کسی بھی دن اکٹھے ہو سکتے ہیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکو اچھے مقاصد میں کامیاب کرے اور آپ کی کامیابی کیلئے رہنمائی فرمائے۔
واللہ اعلم.