الحمد للہ.
اول:
ہم سائل كى سنت اور اہل سنت سے محبت و غيرت ركھنے پر شكرگزار ہيں، اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں ايسےاعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جن سے وہ راضى ہوتا ہے.
رہا مسئلہ ماتريدى اور اشعرى عقيدہ ركھنے والے امام كے پيچھے نماز كا تو يہ نماز صحيح ہے، كيونكہ امام كا بدعتى ہونا اس كے پيچھے نماز ادا نہ كرنے ميں كوئى عذر نہيں كيونكہ جب تك وہ دائرہ اسلام ميں داخل ہے اور كفر نہيں كرتا اس كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح ہوگا.
اشاعرہ اور ماتريدى حضرات اہل سنت سے كئى اصول ميں اختلاف كرتے ہيں، اور جو صاف و شفاف شريعت اللہ سبحانہ و تعالى نے نازل فرمائى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے پہنچايا اور صحابہ كرام جس پر متفق تھے اشاعرہ اور ماتريديہ اس سے منحرف ہيں.
ليكن ان ميں بعض اوقات جاہل اور مقلد ہو سكتے ہيں يا پھر مجتھد جو غلطى كا مرتكب ہوا ہو تو اس حالت ميں وہ معذور ہوگا، اور يہ كہا جائيگا كہ اس سے غلطى ہوئى ہے، ليكن اس پر بدعتى ہونے كا حكم اسى صورت ميں لگايا جائيگا جب وہ جاہل نہ ہو اور كتاب و سنت كى اس كے سامنے دليل نہ ہو، اور اگر دليل آ جائے اور پھر بھى وہ اس پر قائم رہے تو بدعتى كہلائيگاز
مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 42629 ) اور ( 20885 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.
اور يہ كہ وہ حنفى ہيں حنفى ہونا قابل مذمت نہيں، بلكہ قابل مذمت تو يہ ہے كہ تعصب ميں آ كر صرف حنفى مسلك ہى كى پيروى كى جائے چاہے كتاب و سنت اس كے خلاف ہو، كيونكہ جب كتاب و سنت سے دليل مل جائے تو پھر كتاب و سنت كى اتباع كرنا واجب ہوگى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رہے فروعات ميں مخالف مثلا ابو حنيفہ اور مالك اور شافعى ان كے پيچھے نماز ادا كرنا صحيح ہے مكروہ نہيں؛ كيونكہ صحابہ كرام اور تابعين عظام اور ان كے بعد والے ايك دوسرے كے پيچھے نماز ادا كرتے رہے ہيں، حالانكہ ان كا فروعات ميں اختلاف تھا، تو يہ اجماع ہوا " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 2 / 11 ).
مندرجہ بالا كلام كا تتمہ آپ سوال نمبر ( 106431 ) ميں ديكھ سكتے ہيں.
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
" كيا اپنے مسلك كے مخالف شخص كے پيچھے نماز ہو جاتى ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" صحابہ كرام اور تابعين كرام اور آئمہ اربعہ كا اتفاق ہے كہ اپنے مسلك كے مخالف شخص كے پيچھے نماز ہو جاتى ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 378 - 380 ).
ہم اس سلسلہ ميں شيخ الاسلام رحمہ اللہ كى مكمل كلام سوال نمبر ( 152874 ) كے جواب ميں نقل كر چكے ہيں آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
" فروعات ميں اختلاف كا مسلكى اختلاف ركھنے والوں كا ايك دوسرے كے پيچھے نماز ادا كرنے ميں كوئى اثر نہيں، امام اور دوسرے افراد كو چاہيے كہ وہ راجح دليل تلاش كرے چاہے مقتدى اس كى موافقت كريں يا مخالفت اسے دليل كے پيچھے چلنا چاہيے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 366 ).
آپ كو چاہيے كہ امام اور اس كے ساتھيوں كےساتھ بہتر طريقہ سے معاملہ كريں، اور قول و فعل ميں نرمى سے كام ليں اور حكمت كےساتھ انہيں نصيحت كريں اور حق كى طرف لانے كى كوشش كريں.
آپ كے علم ميں ہونا چاہيےكہ بہت سارے افراد كے سامنے جب حق واضح ہوا تو انہوں نے تعصب كو ترك كرتے ہوئے عقيدہ ميں بدعات اور مذہبى تعصب كو چھوڑ كر حق كو تسليم كر كے حق پر چلنے لگے، اور بہت سارے اہل حق كے نرم رويہ اور اچھى بات اور حكمت كے ساتھ نصيحت كى بنا پر اكثر لوگوں نے اپنے باطل عقيدے كو ترك كرے منہج حق كو گلے لگا ليا، ہو سكتا ہے اللہ تعالى كا آپ اور ان كے ساتھ خير و بھلائى كا ارادہ ہو كہ آپ ان كى مسجد ميں نماز ادا كريں اور آپ انہيں نصيحت كريں اور وہ قبول كر كے حق كو قبول كر ليں، كيونكہ بندوں كے دل تو اللہ سبحانہ و تعالى كے قبضہ ميں ہيں وہ جس طرح چاہے انہيں پھير ديتا ہے.
اس ليے آپ حق كو مضبوطى سے تھام كر ركھيں جس پر آپ ہيں اور اس حق كو دوسروں تك بھى پہنچانے كى حكمت كے ساتھ پورى كوشش بھى جارى ركھيں، اور بہتر اسلوب اور طريقہ اختيار كريں، اور رويہ اور لہجہ بھى نرم ركھيں اللہ تعالى آپ كا حامى و ناصر ہے.
واللہ اعلم .