جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

رمضان المبارك ميں دن كے وقت غير مسلم ملازمين كو كھانا پيش كرنا

149174

تاریخ اشاعت : 12-09-2010

مشاہدات : 5746

سوال

ايك شخص كى زمينيں ہيں اور اس كے پاس غير مسلم ملازمين ہيں، انہوں نے رمضان المبارك ميں دن كے وقت كھانا لانے كا مطالبہ كيا ہے، وگرنہ كام نہيں كرينگے، اور بالفعل اس شخص نے انہيں رمضان ميں دن كے وقت كھانا لا كر ديا، برائے مہربانى آپ كى اس عمل كے بارہ كيا رائے ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص كے ليے غير مسلم ملازمين لانا مناسب نہيں ہے، اور اسے ايسا نہيں كرنا چاہيے، بلكہ اسے چاہيے كہ وہ غير مسلم ملازمين كو مت لائے؛ كيونكہ غير مسلم كو لانا انسان كے ليے نقصاندہ ہو سكتا ہے، يہ اس كى جان كے ليے بھى اور اس كے عقيدہ اور اخلاق كے ليے بھى نقصاندہ ہے.

اور پھر اس كى اولاد اور گھر والوں كے ليے بھى نقصاندہ ہے اور خاص كر گھريلو ملازمات اور خادم غير مسلم ہوں تو يہ شديد خطرناك ہيں.

لہذا كام كاج كے ليے يا پھر گھر ميں بچوں كى تربيت اور كام كے ليے صرف مسلمان ملازمات ہى ركھنے چاہييں، اور اسى طرح مرد بھى غير مسلم مت لائيں، بلكہ مسلمان ملازمين ہى طلب كيے جائيں نا كہ غير مسلم كيونكہ غير مسلم بہت نقصاندہ ہيں.

اور اس ليے بھى كہ ان كا عقيد اور اخلاق مسلمان كے عقيدہ اور اخلاق سے عليحدہ ہے، لہذا ان كے شر و برائى سے بچتے ہوئے اپنے ملك ميں غير مسلم ملازمين كو نہ لايا جائے تا كہ غير مسلموں كے ساتھ اختلاط نہ ہو.

اور يہ بھى ہے كہ اس جزيرہ عرب ميں جائز نہيں كہ يہاں دو دين ہوں، يہاں صرف ايك ہى دين رہ سكتا ہے، اور يہ خادم اور ملازمين ہو سكتا ہے اپنے كام كاج كى بنا پر طويل عرصہ رہيں اس ليے جزيرہ عرب ميں غير مسلمانوں كو لانا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يہود و نصارى كو جزيرہ عرب سے نكال باہر كرو "

اور دوسرى روايت ميں ہے:

" مشركوں كو جزيرہ عرب سے نكال دو "

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى موت كے وقت يہى وصيت فرمائى تھى، اس ليے مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ مسلمان مرد و عورت كے علاوہ كسى اور كو كام كاج كے ليے لائے، اس جزيرہ عرب ميں غير مسلم كو نہيں لايا جا سكتا...

جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے كہ اس جزيرہ عرب ميں غير مسلم شخص كو نہيں لايا جا سكتا؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہاں سے مشركوں اور يہود و نصارى كو نكالنے كا حكم ديا ہے، اور اس ميں صرف ايك ہى دين باقى رہے كيونكہ يہ دين اسلام كا منبع ہے.

اور اس ليے بھى كہ اللہ تعالى كے بعد مسلمانوں كى اس جزيرہ عرب سے اميديں وابستہ ہيں، وہ اس كى اقتداء كرتے ہيں اس ليے جب يہاں غير مسلم لائے جائينگے تو يہ باقى علاقوں كے مسلمانوں كے ليے بھى غير مسلم ملازمين لانے كى چابى ہو گى، اور اس طرح غير مسلموں كے ساتھ اختلاط ہوگا جو سب مسلمانوں كے ليے نقصاندہ ہے.

رہا مسئلہ انہيں كھانا پيش كرنا اور لا كر دينے كا تو اس كے بارہ ميں گزارش ہے كہ:

اگر وہ غير مسلم ہيں اور چاہتے ہيں كہ انہيں رمضان ميں كھانا پيش كيا جائے تو مسلمان شخص اس ميں ان كا تعاون مت كرے، اگرچہ كافر روزہ ركھ بھى ليں تو ان كا روزہ صحيح نہيں ہوگا، ليكن وہ شريعت كى فروعات كے مخاطب ضرور ہيں.

اس ليے جب وہ شريعت كے مخاطب ہيں تو پھر شريعت مخالف امور ميں ان كى معاونت نہيں كى جائيگى، بلكہ انہيں نصيحت كى جائيگى اور ان كى راہنمائى كى جائيگى ہو سكتا ہے وہ مسلمان ہو جائيں.

اس ليے انہيں اسلام كى دعوت دى جائيگى، اور انہيں خير و بھلائى كى دعوت دى جائے ہو سكتا ہے وہ قبول كر ليں تو انہيں بھى مسلمانوں كى طرح اجروثواب حاصل ہو:

فرمان نبوى ہے:

" جس كسى نے بھى كسى خير و بھلائى كى طرف دعوت دى تو اسے بھى عمل كرنے والے كے مثل ثواب حاصل ہوگا "

اور فرمان نبوى ہے:

" اگر اللہ تعالى تيرى وجہ سے ايك شخص كو ہدايت دے دے تو يہ تيرے ليے سرخ اونٹوں سے زيادہ بہتر ہے "

اس ليے اگر وہ انكار كريں تو پھر وہ اپنے ليے كھانا خود ہى تيار كريں، اس طرح كے امور ميں وہ خود اپنى ضرورت پورى كرينگے ہو سكتا ہے وہ اس سے متاثر ہو كر ہى مسلمان ہو جائيں وگرنہ ان كے ساتھ ملازمت كا عقد ختم كر ديا جائے، اللہ تعالى ان سے افضل ملازم دےگا، اس ليے ان كے ساتھ تساہل مت كيا جائے چاہے وہ ملازمت اور كام ترك كرنے كا مصمم عزم بھى كر ليں، وہ چھوڑ ديں گے تو اللہ تعالى ان سے بہتر لائيگا.

اس طرح كے معاملات ميں ان كى معاونت بالكل نہيں كرنى چاہيے، لہذا مسلمان شخص كو رمضان المبارك ميں دن كے وقت روزے كى حالت ميں كھانے پينے كے معاملات ميں ان كى مدد نہيں كرنى چاہيے چاہے وہ كافر ہوں يا فاسق قسم كے مسلمان جو روزے رنہيں ركھتے.

نہ تو رمضان المبارك ميں كھانے پينے كے معاملہ ميں ان كى مدد كى جائے، اور نہ ہى اللہ كى حرام كردہ اشياء ميں وہ خود ہى كريں اور اپنى ضروريات كى اشياء خود خريديں " انتہى

فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ .

ماخذ: ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 1 / 466 - 468 )